تعلقات اور مفادات ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ

بھارت کے خلیجی ممالک سے روز بروز بڑھتے ہوئے سماجی، ثقافتی، تجارتی اور دفاعی روابط پاکستانیوں کے لئے جہاں حیران کن ہیں وہیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ ان ممالک سے مایوس ہونے کے بعد اپنے دفاع اور کاروبارِ حیات کے لیے کسی دوسری جانب نظریں دوڑائی جائیں کیونکہ جغرافیائی حالات کے پیش نظر پاکستان کو ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو کسی بھی مصیبت یا بیرونی حملے کی صورت میں کاندھے سے کاندھا ملا کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ حالات و اقعات کھلم کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت پاکستان پر کسی بھی قسم کی سرجیکل سٹرائیک کی حماقت کر سکتا ہے یا بین الاقوامی سرحدوں، لائن آف کنٹرول اور سمندری حدود سمیت کسی بھی پاکستانی علاقے کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایسی صورت حال کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو ایسے دوستوں کی سخت ضرورت ہو گی جو بھارت کے مقابلے میں‘ آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے اسی طرح اس کا ساتھ دیں جیسے جنگ ستمبر میں ایران، انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکی نے دیا تھا۔ دوست عرب ممالک کی بھارت سے دوستی یا تعلقات اگر معاشی حد تک ہوتے تو شاید یہ ہمارے لیے پریشانی کا باعث نہ ہوتے لیکن جب پاکستانیوں پر یہ کہتے ہوئے ویزہ پابندیاں عائد کر دی جائیں کہ کورونا کا خدشہ ہے اور بھارت کو تمام پابندیوں سے مبرا قرار دیا جائے تو پھریہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ بھارت‘ جو پاکستان کے مقابلے میں کورونا کا زیادہ نشانہ بنا اور جو کورونا کیسز کی فہرست میں پوری دنیا میں دوسرے اور اموات میں تیسرے نمبر پر ہے‘ جہاں کورونا کے مصدقہ کیسز کی تعداد پاکستان کی تعداد سے پچیس گنا زیادہ ہے‘ کیا اس سے کوئی خدشہ نہیں؟ اگر ہمارا کوئی دوست ملک یہ کہہ کر باہمی تعلقات میں سردمہری لے آئے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے یا یہ بہت شدت پسند اور پاکستانی بہت بیک ورڈ ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسائل کیا راتوں رات پیدا ہوئے؟ اور یہ شدت پسندی پہلے ہم میں کہاں تھی؟ اس کے ذمہ دار تو وہ ممالک ہیں جنہوں نے پاکستان کو اپنا اکھاڑہ بنائے رکھا اور بعد میں پاکستان کو اس عفریت کے حوالے کر کے منہ موڑ لیا۔ افغان جہاد سے پہلے کیا پاکستان میں کسی انتہا پسند اور عسکری تنظیم کا وجود تھا؟ فرقہ واریت کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی رہی ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر پاکستانی شدت پسند ہیں تو بھارت‘ جہاں سرعام گائے کا گوشت کھانے کی سزا موت ہے‘ کیا وہ انتہا پسندی کا شکار نہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک انتہا پسندی میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جہاں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اچھوت سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ قریبی رشتہ داری ہو یا دوستی‘ تعلقات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس وقت ان تعلقات کی رسی اور بھی کمزور پڑ جاتی ہے جب دوستی اور بھائی چارے کو مفادات کی نظر سے دیکھا جانے لگے۔ علاوہ ازیں اگر کوئی دوست‘ اپنے دوست کے دشمنوں کو سینے سے لگانا شروع کر دے تو پھر دوستی اپنی بنیاد ہی کھو بیٹھتی ہے اور دشمن بھی ایسا جو ایک آدھ بار نہیں‘ ہمہ وقت اسی تاک میں رہتا ہو کہ نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ملے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وہ تعلقات جو سمندر کی گہرائی سے ناپے جاتے تھے‘ اب لہروں کے مدو جزر پر تیرتے دیکھے جا رہے ہیں۔ جب سے پاکستان اس دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا ہے تاریخ گواہ ہے کہ فلسطین، عراق، مصر، سعودی عرب، اردن ،کویت، ترکی، قطر، ایران، لیبیا اور بحرین سمیت کسی بھی ملک کی سالمیت یا اس پر پڑنے والی کسی بھی بیرونی یلغار اور کسی بھی بیرونی سازش اور تخریبی عمل کے نتیجے میں پہنچنے والی تکلیف کو بالکل اسی طرح محسوس کرتا رہا جیسے وہ ممالک۔ جیسے یہ زخم اس کے برادر ملکوں کو نہیں بلکہ اس کے اپنے جسم پر لگے ہوں۔ اس بھائی چارے کی پاکستان نے اب تک قیمت بھی بہت بڑی ادا کی ہے اور اب بھی پاکستان کا بچہ بچہ اپنے عرب بھائیوں کی تکلیف اور مصیبت کے وقت میں ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہونا اپنے لیے عبادت سمجھتا ہے۔ حرمین شریفین جیسے متبرک اور پاکیزہ مقامات کا ذکر کرتے ہوئے ہر پاکستانی کی آنکھوں میں خوشیوں اور عقیدت کی چمک ابھرنے لگتی ہے اور ان مقدس ترین مقامات کی عظمت اور حفاظت کی قسم اٹھائے بغیر کوئی بھی اپنے ایمان کو مکمل نہیں سمجھتا۔ یہ بنیادی فرق خلیجی ممالک کو اس وقت کیوں نظر نہیں آتا جب وہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتے ہیں؟
''ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے؍ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘‘ پاکستان نے ہمیشہ علامہ اقبالؒ کے اس شعر کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آج پاکستان کو یہ کہہ کر اپنے سے دور کر لیا جائے کہ اس کی ترکی، ملائشیا یا ایران سے دوستی ہے یا ان کے آپس کے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں تو یہ اسلامی بلاک کے لئے تسکین اور خوشی کا باعث بننا چاہئے کیونکہ پاکستان نے ہمیشہ دو ناراض مسلم ریاستوں کے معاملات سلجھانے کی کوشش کی ہے جس میں اسے اکثر کامیابیاں بھی ملیں۔ اگر خلیجی ممالک کے بھائی ہمیں چھوڑ کر بھارت سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھاتے ہوئے اس کی معیشت کیلئے اربوں ڈالرز کی بارش کر رہے ہیں یا بھارت کی افرادی قوت کو اپنے ہاں تھوک کے حساب سے بلا رہے ہیں تو ان حالات میں پاکستان کو بھی زندہ رہنے کا حق تو ہونا چاہئے۔ اگر وہ ترکی ملائیشیا یا ایران کی جانب بڑھتا ہے تو یہ ناقابلِ معافی جرم کیوں؟
اگر ہمارے یہ ممالک پاکستان کے بجائے بھارت کو ہی اپنا محافظ سمجھ لیں گے تو ہمیں افسوس تو ضرور ہو گا۔ سوال یہ بھی اٹھے گا کہ اب مقاماتِ مقدسہ کا دفاع اور اس کی حفاظت بھارتی فوجی کریں گے؟ بھارتی آرمی چیف کے حالیہ دورۂ یو اے ای اور سعودیہ نے شاید اسی لئے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی ہے۔ شاید یہ ممالک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کورونا اور معاشی تباہی کے سبب بھارت اب نئی عالمی مارکیٹوں کی تلاش میں ہے اور اسے اپنے مہنگے میزائلوں کی فروخت کے لیے عرب خطہ آئیڈیل محسوس ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ پلاننگ کے تحت بھارتی پروپیگنڈا میڈیا پہلے پاکستان‘ ملائیشیا اور ترکی کے نئے بلاک کا بے بنیاد ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر عرب ممالک کو پاکستان سے متنفر کرتا رہا اور بعد ازاں بھارتی آرمی چیف کے دورے کا مقصد بھی یہی تھا کہ گرم لوہے پر چوٹ لگائی جائے۔
پاکستان اور بھارت کی ثقافت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔خلیجی ممالک ان دونوں ممالک کے بنیادی نظریات کو کیسے ایک ہی نظر سے دیکھیں گے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج خطہ عرب میں امریکی اور مغربی غلبے کے ساتھ ساتھ بھارت کا غلبہ بھی بہت حد تک بڑھ چکا ہے لیکن اس کے باوجود عرب اور خلیجی ممالک کے لیے ہر پاکستانی کے دل میں احترام اور ان کی سالمیت کے لئے جذبہ برقرار رہے گا۔ یہ ہر مشکل وقت میں ہمیں اسی طرح تیار پائیں گے جیسے مصر، ترکی، اردن ، فلسطین، لیبیا، کویت ، بحرین اور سعودی عرب پر آنے والے مشکل وقت کے دوران پاکستان نے پہلے قربانیاں دی تھیں۔