ٹکٹ …؟ ٹکٹ ؟ ٹکٹ ؟
ٹکٹ چیکر نے ہمارے پاس بیٹھے مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے کے بعد ،ہم دونوں سے بھی ٹکٹ مانگے۔ اس پر رضوان نے بہت اعتماد سے کہا۔
’’جی ہم لوگ ، ایم۔ اے رضوی صاحب کے بھائی ہیں ‘‘
کون ایم۔اے۔ رضوی ؟۔ جو ریلوے میں ٹی سی ہیں ؟
جی جی ۔ رضوان نے جلدی سے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’آئی سی ! تو آپ دونوں ایم۔ اے رضوی کے بھائی ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی آپ دونوں سے مل کر۔ اب آپ برائے مہربانی اپنے ٹکٹ دکھانے کی زحمت کیجئے۔ اگلا اسٹیشن آنے والا ہے اور مجھے دوسرا ڈبہ بھی چیک کرنا ہے۔ ٹی ٹی نے سخت لہجے میں کہا۔
"ارے آپ تو مذاق کرنے لگے۔ـ‘‘ رضوان نے سنجیدگی سے کہا۔
"جی نہیں جناب ، مذاق کرنے کے لئے سرکار تنخواہ نہیں دیتی ہے۔ میرا وقت برباد مت کیجئے۔ ذرا جلدی کیجئے۔ ٹکٹ دکھائیے۔ "
ٹی سی کا لہجہ ایک دم سخت ہوگیا۔
اب تو رضوان گھبرایا۔ اس نے یقین دلانے کی کوشش کی ۔
ـمیں سچ کہتا ہوں۔ ہم دونوںرضوی صاحب کے کزن بھائی ہیں۔
ــ’’وہ تو میں بہت دیر پہلے سن چکا ہوں‘‘۔ ٹی سی نے اپنی جیب سے رسید بک نکالتے ہوئے کہا۔
’’آپ دونوں کو کرائے کے علاوہ جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ بولئے کہاں تک جانا ہے؟
ٹی سی نے رسید پر قلم چلاتے ہوئے دریافت کیا۔
’’دلی!‘‘
رضوان نے بڑی بے دلی سے کہا اور میں نے خاموشی سے پیسے ادا کر دئیے اور رسید رضوان کی قمیص کی جیب میں ڈال دی ۔
" میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ٹکٹ لے لو لیکن تم پر تو نقشے بازی سوار رہتی ہے ۔کرایہ سے زیا دہ پیسے دینے پڑے۔ جو اتنے آدمیوں کے سامنے
بے عزتی ہوئی، وہ الگ ! "۔
میں غصہ میں بڑبرانے لگا۔ رضوان بھی غصہ سے بھرا بیٹھا تھا۔وہ ایک دم پھٹ پڑا۔
اب بھلا میں اس کے لئے کیا کروں؟۔ یہ تو اتفاق ہے۔ ورنہ میںہمیشہ رضوی صاحب کا نام بتاکر نکل جاتا ہوں۔ لگتا ہے یہ اس لائن پر نیا نیا آیا ہے!۔
’’یہ رضوی صاحب کون ہیں۔؟ اُن کو تم کیسے جانتے ہو؟‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے رضوی صاحب کے بارے میں جاننا چاہا۔
وہ میرے ایک دوست کے بڑے بھائی ہیں۔ میں نے آج تک ان کی شکل نہیں دیکھی ۔ صرف نام سے واقف ہوں۔ ذرا اِن صاحب کا نام تو دیکھوں تاکہ رضوی صاحب سے مل کر اسکی شکایت کر سکوں ! ۔
رضوان نے تلملاتے ہوئے اپنی قمیص کی جیب سے رسید نکال کر ٹی سی کا نام جاننے کے لئے اس کے دستخط پڑھنے کی کوشش کی ۔
اور وہ رسید کو آنکھیں پھاڑتے ہوئے، بڑی حیرت سے دیکھتا رہ گیا کیوں کہ رسید پر دستخط ک طور پر لکھا تھا۔
ایم۔اے ۔رضوی