جب ہاورڈ یونیورسٹی کے سابق پروفیسر نے امریکی سینیٹ میں 3 بم دھماکے کئے
prof.jpg
مالیاتی امور کے ماہر جے پی مارگن کے بیٹے جیک مارگن پر بھی قاتلانہ حملہ کیا
4جولائی 1915ء کو امریکی سینیٹ میں تین دھماکے کرنے والا کوئی عام آدمی نہ تھا۔ نام سن کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ یہ ہاورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل طالب علم نہیں بلکہ بیوی کے قتل پر نکالا جانے والا سابق پروفیسر تھا۔
اس روز ایک امریکی پروفیسر ایرک میونٹر (Erich Muenter) یا ایرک میونٹر نے سینیٹ کی عمارت کو تباہ کرنے کے لئے بارود بم بھرنے کے بعد تین ڈنڈے سینیٹ ہال کے دفتر استقبالیہ میں رکھ دیئے۔ سینیٹروں کی قسمت اچھی تھی کہ وہاں کوئی نہ تھا۔ زور داردھماکوں سے چھت کو نقصان پہنچا ، کھڑکیوں اور دروازوں کے شیشے ٹوٹ گئے ۔ بعدازاں پروفیسر نے اس بم حملے کا جواز بتاتے ہوئے کہا کہ '' میں کیاکرتا ، امریکی سرمایہ کار برطانیہ کی پشت پر ہیں اور حکومت چپ سادھے بیٹھی ہوئی ہے، یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا‘‘۔ مجرم نے سینیٹ میں بم رکھنے سے ایک دن پہلے 3جولائی کو مالیاتی امور کے ماہر جے پی مارگن کے بیٹے جیک مارگن پر بھی قاتلانہ حملہ کیا، وہ بچ گئے لیکن امریکہ کی تاریخ میں یہ دونوں دن دہشت کی علامت کے طور پر لکھے گئے ۔
تفصیلات کے مطابق پروفیسر ایرک میونٹر (25مارچ 1871ء ۔6 جولائی 1915ء ) کے آبائو اجداد جرمنی سے آئے تھے۔امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایرک کئی اہم یونیورسٹیوں سے منسلک رہا ۔سب سے اہم نام ہاورڈ یونیورسٹی کا ہے۔ بھرتی ہونے کے بعد بھی امریکہ کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ جرمنی کا جاسوس ہے، اس کی یہ ''صفت‘‘ سینیٹ میں تین دھماکے کرنے کے بعد ہی امریکی انتظامیہ پر آشکارا ہوئی ۔
ابھی یونیورسٹی سے ہی منسلک تھا کہ 16اپریل 1906 ء کو اپنی حاملہ بیوی لیونا میونٹر کو سایانائیڈ زہر دے کر مار ڈالا۔اس بھیانک قتل پر 27اپریل کو کیمبرج میسا چوسٹس پولیس نے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ۔لیکن میونٹر بھاگ نکلا۔چند دن تو اپنی سابقہ شریک حیات کے آبائی مکان واقع نیو اورلینز میں ہی چھپا رہا ۔وہیں سے میونٹر نے 5جون 1906ء کو جاری کئے گئے ایک خط میں پولیس کو بھی دھمکانے کی کوشش کی۔ خط کا عنوان تھا''احتجاج‘‘۔ متن کچھ یوں تھا،
'' اگر مجھے میری بیوی کے قتل کیس میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تو میں کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا، میں ایک ہی دھماکے میں پورے شکاگو اور کیمبرج کا نام و نشان مٹا دوں گا ،راکھ کا ڈھیر بنا دوں گا‘‘۔ پولیس خط کے پتے پر پہنچی تو وہاں نہ تھا، پہلے ہی فرار ہو چکا تھا۔ وہ بھیس بدل کر کئی ریاستوں میں روپوش رہا۔ دس برس یونہی گزر گئے۔ حیرت انگیز طور پر وہ ان دس برسوں میں بھی کبھی کبھی ایک جرمن قوم پرست کے طور پر لوگوں سے ملتا رہا ، جنگ عظیم کے بارے میں اپنا موقف پیش کرتا رہا۔ وہ فرانس اور برطانیہ کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا شدید مخالف تھا۔لیکن اسے کوئی نہ پہچان سکا۔ اسی دوران میونٹر نام بدل کر کارنل یونیورسٹی جیسے مایہ ناز تعلیمی ادارے میں پروفیسربن بیٹھا۔اس کا نیا نام ''فرینک ہولٹ ‘‘تھا۔
کہا جاتا ہے اسی یونیورسٹی میں اس کے ہٹلر کے خفیہ ادارے سے رابطے قائم ہوئے ، اس کا مشن برطانیہ اور فرانس کو ملنے والی امریکی امداد بند کرنا تھا۔ اسے امریکہ میں تخریب کاری کے ذریعے یورپ سے دور کرنے کام بھی سونپا گیا تھا۔
پہلا دھماکہ کرنے کے لئے یوم آزادی ،4جولائی 1915ء کا دن چنا ۔وہ کہتا ہے کہ ''میں بم تو سینیٹ کے مین ہال میں رکھنا چاہتا تھا لیکن عمارت کا یہ حصہ لاک تھا، کیاکرتا ، جو جگہ ملی وہیں بم رکھ دیئے‘‘۔
سینیٹ میں دھماکے کرنے سے ایک روز پہلے میونٹرنے 3جولائی کو فرینک ہولٹ کے نام سے ٹرین میں نیو یارک کا سفر کیا، منزل نیو یارک تھی۔ ارب پتی جے پی مارگن کا بیٹا جیک مارگن کانٹے کی طرح اس کی نظروں میں کھٹک رہا تھا۔وہ جیک مارگن کویورپ کی حمایت کرنے پر سزا دینا چاہتا تھا۔ فرینک ہولٹ نے چھوٹے سوٹ کیس میں اخبارات کے تراشوں میں پستول اور ڈائنا مائٹ چھپا رکھے تھے ۔ کوٹ کی جیب میں دو ریوالور ان کے علاوہ تھے۔ ٹرین کا سفر ختم ہوا، وہ سیدھا جیک کے آفس پہنچا۔ جیک مارگن کو وہاں نہ پا کر وہ اسے ڈھونڈتا ہوا گھر پہنچ گیا۔دروازے پر کچھ دیر رک کر تیاری کی، پھر گھنٹی دبا دی۔ملازم نے دروازہ کھولا، ''آپ کون‘‘؟ اس نے پوچھا۔''میں ایک بزنس مین، جیک سے ملنے کا خواہش مند ہوں ، ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس نے اپنا کارڈ ملازم کو تھماتے ہوئے کہا۔''کون سا بزنس کرتے ہیں آپ‘‘ـ؟ ملازم بھی ٹیڑھے دماغ کا تھا، اسے یوں اندر کیسے جانے دیتا۔
سوال جواب کا یہ سلسلہ میونٹر کی برداشت سے باہر تھا۔ اچانک دونوں ریوالور باہر نکالتے ہی ملازم کو دھکا دیتے ہوئے وہ اندر گھس گیا۔ اس کے سر پر خون سوار تھا، اس کی پیاسی نگاہیں جیک مارگن کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔اسی لمحے جیک کا ایک بیٹا سامنے آگیا۔ ریوالور دکھاتے ہوئے دھاڑا ...''اپنے باپ کے پاس لے چلو،ذرا پس و پیش کی تو کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گا‘‘ ۔بیٹا اسے سیڑھیوں کی جانب لے گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ چیخا ......''مارگن ، میں نے تمہیں پا لیا، بچ کر کہاں جائو گے‘‘۔ جیک مارگن سیڑھیوں کی دوسری طرف کھڑے تھے ، وہ ہکا بکا تھے۔ مسز مارگن ان کی طرف لپکیں لیکن اسی لمحے دو گولیاں ران اور پیٹ کو چیرتی ہوئی نکل گئیں۔ جیک کے بدن سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے ۔
مسز مارگن اور دوسروں نے جان پر کھیل کر حملہ آور میونٹر کو دبوچ لیا۔زخمی مارگن نے بھی ہمت نہ ہاری اور ریوالور کا رخ موڑ دیا۔ قابو میں آتے ہی مجرم نے نیا ڈرامہ شروع کر دیا۔''ہاں !مجھے مار ڈالو۔ مجھے قتل کر دو ۔میں زندہ نہیں رہنا چاہتا، میں چھ مہینوں سے جہنم میں ہوں ، جب سے یورپ میں جنگ شروع ہوئی ہے، میرا سکون غارت ہو گیا ہے۔ میں جینا نہیں چاہتا‘‘۔
عملے نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا ، دوران تفتیش وہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔اس کے قبضے سے برآمد ہونے والے کاغذوں پر جیک مارگن کے چاروں بچوں کے نام لکھے تھے۔ایک اور کاغذ لکھا تھا ، '' انکل سام آگ سے کھیل رہا ہے‘‘۔ سمندری جہازوں کی کچھ نشان زدہ تصاویر بھی برآمد ہوئیں۔ شائد وہ ان جہازوں کو بھی اڑانا چاہتا تھا۔ سوٹ کیس اور کپڑوں سے ڈائنا مائٹ کی 134 سکٹس،بغیر دھویں کے دھماکہ کرنے والا پوڈر، دھماکوں میں استعمال ہونے والی بیٹریاں، فیوز، آتش گیر مادے سے بھرے ہوئے تین ڈبے اور نمی پروف ماچسیں بھی برآمد ہوئیں۔ مجرم نے سزا ملنے سے پہلے پولیس کی حراست میں خود کشی کر لی تھی ۔ تاہم جیک مارگن چند ہفتے زیر علاج رہنے کے بعد صحت باب ہو گئے تھے۔