ہجوم رنج و الم ہے یہ نیم جاں کے لیے
جفا وہ کرتے ہیں عاشق پہ امتحاں کے لیے
بتوں کے جور و جفا پر میں صبر کرتا ہوں
یہاں کے واسطے کچھ ہے تو کچھ وہاں کے لیے
خدا کے واسطے رہنے دے اپنے در پہ اسے
بنا ہے سنگ یہ دل تیرے آستاں کے لیے
ہمارے پہلوئے غمگیں میں حیف یہ دل زار
نزاکتوں سے پلا الفت بتاں کے لیے
ٹپک کے دیدۂ پر نم سے کیوں نہ گر جاتا
بنا لہو مرا دل چشم خونچکاں کے لیے
ہوائے تند خدا کے لیے نہ چھیڑ مجھے
غبار راہ بنا ہوں میں کارواں کے لیے
کیا ہے درد دل زار نے اسے عاجز
لبوں پہ جان حزیں آئی ہے فغاں کے لیے
جمیلہؔ تا در محبوب کس طرح جاؤں
قدم اٹھانا ہے دشوار ناتواں کے لیے
جمیلہ خدا بخش