مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے
اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں، ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے
فاصلوں اور قیدِ تنہائی تلک تو آگئے
جانے کیا کچھ اور بھی نذر وبا ہونے کو ہے
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسے لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے