کورونا کے بعد ترقی .... ڈاکٹر سید فیصل عثمان

corona ke baad taraqi.jpg
ٹیلی میڈیسن کے دور کا آغاز
کوویڈ 19 سے جہاں اقوام عالم کیلئے بے تحاشا مسائل پیدا ہوئے وہاں ہی اس کے علاج پر توجہ دینے سے ''ٹیلی میڈیسن‘‘ کے شعبے کو فروغ حاصل ہوا۔ قبل ازیں 14فیصد خواتین براہ راست ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے ٹیلی میڈیسن کے ذریعے سے کمپیوٹر، ایپ یا فون استعمال کرتے ہوئے ادویات یا مشورے حاصل کرتی تھیں۔ مگر اب ٹیلی میڈیسن حاصل کرنے والوں کی تعداد امریکہ میں دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ یورپی ممالک میں بھی یہی کیفیت ہے جبکہ پاکستان میں اس شعبے میں کافی کام ہونا باقی ہے۔ جوڑوں کے درد اور جلد کے امراض کے سلسلے کے امراض میں خاص طور پر معاونت حاصل کی گئی۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں ''آن لائن سائیکو تھراپی‘‘ بھی بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ اس سے مخصوص علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی پر بھی قابو پا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں یہ شعبہ ابھی نوزائیدہ ہے۔ ڈاکٹر علی کے مطابق اس شعبے میں کئی ایپس کام کر رہی ہیں جو کہ گھروں پر مردانہ زنانہ نرسوں اور ڈاکٹروں کی فراہمی کا بھی بندوبست کرتی ہیں۔ اس پر اخراجات کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ذریعے ہم دیہات میں اپنی کمی پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے حمل سے متعلقہ مسائل پر قا بو پاکر ان کا علاج کیا جاسکتا ہے۔
۔2020ء کی سب سے بڑی ہیلتھ سٹوری
دسمبر 2019ء میں دنیا کو دہشت زدہ کر نے والے کوویڈ 19 کی درجنوں ویکسین پر تیاری کا کام جاری ہے۔ شاید ان سطور کے منظر عام پر آنے تک ایک ویکسین پاکستان بھی پہنچ چکی ہو ۔ لیکن اس کی سب سے بڑی سٹوری ایسے ماسک کی تیاری ہے جو جراثیم کش قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ان ماسکوں کی مدد سے جراثیم کی بروقت ہلاکت بھی ممکن ہو گی۔ اول تو تجربہ گاہوں میں کوویڈ 19کی تشخیص کا سستا ترین طریقہ تیار کر لیا گیا ہے۔ امریکہ میں ساڑھے سات سو پاکستانی روپے میں رپورٹ مل جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک دن اور ہزاروں روپے کیوں لیے جارہے ہیں اس بارے میں تجربہ گاہیں ہی کچھ بتا سکتی ہیں۔ اس ٹیسٹ کا ایکوریسی ریٹ 97.1فیصد ہے۔ اسی لیے اسے مؤثر ترین ٹیسٹ قرار دیا گیا ہے۔ تجربہ گاہوں میں عام پھوڑے پھنسی کی دوا بھی تیار کر لی گئی ہے۔ ایک سروے کے مطابق 85فیصد امریکی ٹین ایجر ان امراض کا شکار ہتے ہیں۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ(Retinoic acid receptors)کی وجہ سے نمودار ہونے والے اس مرض سے خلیوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے جبکہ نئی دوا خلیوں کی نشوونما کو بہتر بنا کر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
ڈسپوزیبل طبی آلا ت
کی تیاری
ہیپا ٹائٹس ، کورونا ، ٹی بی، ایڈز اور دیگر وائرل امراض کا بہت بڑا ذریعہ بار بار استعمال ہونے والی سرنجیں اور دیگر آلات بھی ہیں۔ لیکن گزشتہ برس ڈاکٹروں نے کمال مہارت کے ساتھ کئی امراض کے علاج میں استعمال ہونے والے ڈسپوزیبل آلات تیار کر لئے ہیں۔سانپ کی شکل کے یہ آلات ایک مریض کے استعمال کے بعد ضائع کر دئیے جائیں گے۔امریکی ادارہ ایف ڈی اے نے بھی امریکہ میں ان کے استعمال کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ دور حاضر میں طبی آلات بھی متعدد امراض کا سبب بن رہے ہیں۔ ایک مریض کا مؤثر علاج کرنے کے بعد انہیں ضائع کرنا بھی آسان ہوگا۔ ڈسپوزیبل آلات کے ایک سرے پر طاقتور کیمرا اور لائٹس لگی ہوتی ہیں۔ جو جسم کے اندر پائی جانے والی ہر خرابی کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنے میں بہت مؤثر ہے۔ اس سے بیکٹیریل امراض کے علاج میں آسانی ہوتی ہے۔ ان کے ذریعے بواسیر اور پینکریاز کے علاج میں بھی سہولت ہوگی۔ سانپ جیسے اس آلے کا نام (duodenoscope) رکھا گیا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اسے مارکیٹ کر دیا جائے گا۔