گرین لینڈ قدیم تہذیبیں، ۔۔۔۔ خاور نیازی
green land.jpg
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جزیرے کی قیمت کیوں لگائی تھی؟
قدرت نے انسان کو دنیا کے کونے کونے میں رہنا سکھا دیا ہے ۔پہاڑ تو پہاڑ ،انسان نے بہتے سمندر وں کے نیچے سے بھی رستے بنا لئے ہیں ۔ میدانی علاقوں میں تو ایک دنیا آباد ہے ہی ،سمندروں میں گھرا ہوا ایک ایسا جزیرہ بھی آپ کو نظر آئے گا جو سارا سال برف کی دبیز تہوں میں گھرا رہتا ہے ، لیکن زندگی وہاں بھی صدیوں سے رواں دواں ہے۔اس جزیرے کو دنیا''گرین لینڈ‘‘کے نام سے جانتی ہے ۔ گرین لینڈ دراصل ڈینش زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ''لوگوں کی سرزمین‘‘کے ہیں ، اس کے جنوب مشرق میں بحرہ اوقیانوس ، مشرق میں بحر ہ گرین لینڈ ہے ، شمال میں بحر ہ منجمد شمالی اورمغرب میں خلیج بیفن واقع ہیں ۔ اس کے نزدیک ترین ممالک کینیڈا اور آئس لینڈ ہیں ۔
دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ:گرین لینڈ نہ صرف رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے بلکہ دنیا کا سب سے کم گنجان آباد ملک ہونے کا درجہ بھی رکھتا ہے ۔ کل آبادی 57ہزار ہے جن میں سے 17 ہزار افراد دارالحکومت نووک میں مقیم ہیں۔دیگر باشندے برف سے محفوظ مغربی ساحلی علاقوں میں مقیم ہیں ۔ گرین لینڈ کا مرکزی حصہ برف کے نیچے دب جانے کی وجہ سے سمندر کی سطح سے نیچے ہے ۔
گرین لینڈ کی ثقافت اور تاریخ :یہاں زمانہء قدیم سے برف کا راج رہا ہے اس لئے یہاں اسکیمو ز تہذیبیں موجود رہی ہیں ۔آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہاں کی ثقافت کا کھوج لگانے کے لئے لاتعداد شواہد ملے ہیں ۔دستیاب شواہد کے مطابق 2500 قبل مسیح سے لے کر800 قبل مسیح تک جنوبی اور مغربی گرین لینڈ میں سقاق تہذیب کے لوگ بستے تھے ۔اس دور کی زیادہ تر نشانیاں ڈسکو خلیج کے ارد گرد موجود ہیں۔ 800قبل مسیح میں سقاق ثقافت کے لوگ یہاں سے کوچ کر گئے ۔ ان کی جگہ ڈورسیٹ تہذیب کے لوگوں نے لے لی۔ یہ لوگ گرین لینڈ کے مغربی حصے میں آباد تھے۔ شمال کی جانب ایک نئی تہذیب کا آغاز ہوا۔ڈورسیٹ باشندے پہلی تہذیب کے لوگ مانے جاتے ہیں جو ساحلی علاقوں میں آباد ہوئے۔ اس تہذیب کا دور پندرہویں صدی عیسوی تک رہا ۔ بعد ازاں ٹھل تہذیب کے لوگوں نے انکی جگہ لے لی ۔دراصل گرین لینڈ کے موجودہ باسیوں کے آباؤ اجداد اسی ٹھل تہذیب کے لوگ ہی تھے ۔جو 1000 عیسوی میں الاسکا سے یہاں آ کر آباد ہوتے رہے اور یہ سلسلہ 13 ویں صدی عیسوی تک جاری ریا۔برفانی تہوں کے جائزے اور درختوں کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ 8ویں صدی سے 13 ویں صدی کے درمیان اس خطے کا موسم قدرے مناسب تھا ۔
گرین لینڈ کا جغرافیائی محل و وقوع :گرین لینڈ کا کل رقبہ 21.66لاکھ مربع کلو میٹر ہے جس میں برفانی تہ کا رقبہ 17.55مربع کلو میٹر ہے ، گویا 81فیصد حصہ تین کلو میٹر موٹی برف کی تہہ میں ڈھکا ہوا ہے ۔ برف کی کل مقدار 28.50 لاکھ مکعب کلو میٹر بنتی ہے ۔ اس کا ساحلی علاقہ 39.33 ہزار کلو میٹر طویل ہے جبکہ بلند ترین مقام 3859میٹر بلند ہے ۔1950 ء میں گرین لینڈ کو ایک فلاحی ریاست کا درجہ دے دیا گیالیکن یہ اس وقت ڈنمارک کی ایک کالونی تھا۔ 1953ء میں اسے آزاد ریاست کا درجہ مل گیا۔
گرین لینڈ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں: سائنس دانوں کے مطابق ''گرین لینڈ کو عالمی سطح پر موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا ہے ۔ زمین کا ایک بڑا سا قطعہ آرکٹک کی برف پگھلنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ سمندر کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ‘‘۔ورلڈ میٹرولو جسٹ آرگنائزیشن کے مطابق ''گرین لینڈ کے گرد پانی کی سطح تیزی سے بلند ہو رہی ہے ۔ سمندرکی سطح 25فیصد سے 30بلند ہو چکی ہے‘‘ ۔سائنس دانوں کے مطابق ''گرین لینڈ میں 2003ء تک 75 گیگا ٹن برف پگھل رہی تھی لیکن اس کے بعد اچانک برف پگھلنے کے عمل میں تین گنا اضافہ نوٹ کیا گیا اور اب سالانہ 186گیگا ٹن سے زائد برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے‘‘‘۔
معدنیاتی دولت سے مالا مال جزیرہ :گرین لینڈ تیل ،گیس ، سونے ، یورینیم ، لوہے، ایلومینیم ، تانبے ، اور پلاٹینم سمیت دیگر قیمتی معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔سمندری حیات میں مچھلیاں اور کیکڑے بھی کثیر تعداد میں یہاں پائے جاتے ہیں ۔
گرین لینڈ میں عالمی طاقتوں کی دلچسپی : قطب شمالی میں برف نے اور ممکنہ بحری راستے نکلنے سے عالمی طاقتوں کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے ۔امریکی فضائیہ نے سرد جنگ کے زمانے میں روس کی جاسوسی کے لئے 1943ء میں ساحلی علاقے ''تھولے ‘‘میں اپنا فضائی اڈہ بنایا ہوا تھا جو نیٹو کے زیر انتظام چلایا جا رہا ہے۔ اس جزیرے کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ20 جنوری کو سابق ہو جانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کی خریداری کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔1867ء میں بھی امریکی محکمہ خارجہ نے اس جزیرے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ 1946ء میں بھی اس وقت کے صدر ہیری ٹرومین نے 10 کروڑ ڈالر اور الاسکا کے کچھ علاقوں کے عوض گرین لینڈ لینے کی پیشکش کی تھی۔روس بھی بارہا اس خطے کی خریداری کی کوشش کر چکا ہے ۔