ستم اورشکم ۔۔۔۔۔۔ محمد ناصر اقبال خان
تبدیلی سرکار پر پاگل پن سوار ہے، منتقم مزاج کپتان کابس چلے تووہ اپنے مخالفین اورناقدین کوزندہ درگور جبکہ تخت لاہور کی طرح”اداروں ” کوبھی “بزداروں ” کے سپردکردیں۔تحریک اِنصاف کے دوراقتدارمیں بھی قابلیت کاقحط اور “اِنصاف” ناپید ہے جبکہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہیں۔اس جمہوریت میں “لچے اُچے ہیں “،ملک میں منتخب حکومت ہوتے ہوئے بھی “اداروں ” پر “بردباروں ” کی بجائے “بزداروں “کاراج ہے اسلئے میں اسے آمریت سے ہزارگنابدتر سمجھتا ہوں۔آج پاکستان بھر میں مختلف مافیاز” بے لگام” جبکہ ناجائز فروشوں کی تلواریں ” بے نیام” ہیں۔میں وثوق سے کہتاہوں جوبیچارے بھوک یاپھربارود سے مررہے ہیں انہیں موت کے بعد قبورمیں بھی چین نہیں ملتا لہٰذاء وزیراعظم کامرقد میں چین ملنے کادعویٰ بھی باطل ہے۔ تحریک انصاف کے دوراقتدارمیں مٹھی بھر چینی چورو ں نے ملک میں بے چینی پیداکردی،متعدد “شوگرملز”مالکان کو”شوگر “کا”مرض”جبکہ ان پرعوام کی محرومیوں کا”قرض “ہے لیکن انہیں موت یاد نہیں۔ “ستم” دیکھیں ان مالکان کی تجوریاں لبالب بھری ہوئی لیکن ان کے” شکم” خالی ہیں، نعمتوں کی فراوانی کے باوجودانہیں ڈاکٹرز کی ہدایات پربیسیوں حلال نعمتیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔قوم کے ساتھ” نمک حرامی” کرنیوالے کئی اس ملک کاقدرتی” نمک “غذاء میں استعمال نہیں کرسکتے۔حکومت مافیازکامحاسبہ کرنے کی بجائے اپوزیشن کے تعاقب میں سرگرداں ہے جبکہ نیب حکام کوبھی محض اپنی مراعات سے مطلب ہے،شفاف احتساب کاتصور ایک سیراب سے زیادہ کچھ نہیں۔نیب لاہورکی عمارت شاندار قصر اوروہاں براجمان ڈی جی کسی شہنشاہ کی طرح ہے۔سہل پسند،مصلحت پسند اورمراعات کی محبت کے اسیرلوگ کسی کااحتساب نہیں کرسکتے۔نیب لاہور کے متعصب اوربددماغ ترجمان کامحاسبہ کون کرے گا،موصوف کو اپنی پسندناپسندکے تحت فیصلے کرنے کااختیارکس نے دیا۔اس قسم کے “اَن پروفیشنل “لوگ جس ادارے میں بھی ہوں گے شکست وریخت اور رسوائی اس کامقدربن جائے گی۔اگرنیب حکام کی مراعات اوراب تک چوروں سے برآمدہونیوالی رقوم کاحساب کیاجائے توریاست کا خسارے میں رہنایقینی ہے۔کرپشن سے نجات کیلئے لاہورمیں نیب کو تحقیقات کے ماہر حکام اورپروفیشنل ترجمان کی ضرورت ہے۔
کپتان اپنے نااہل ٹیم ممبرزاور ناقص تجربات سے ملک میں مزید سیاسی وآئینی تنازعات پیداکررہے ہیں۔حکومت سمیت نیب کی مجرمانہ غفلت اورعدم مہارت کے سبب کرپشن میں کمی آنے کی بجائے مزید شدت آگئی ہے۔کپتان کا انتقامی طرزسیاست ہماری مقروض ریاست،مفلوج معیشت اورمعاشرت کیلئے زہرقاتل ہے،جس کانائب کپتان عثمان بزدار ہو جبکہ ٹیم ممبرز طاہراشرفی،زلفی بخاری،مفتی قوی اورعبدالخبیر آزاد ہوں وہ لیڈر تودرکنار پروفیشنل کپتان بھی نہیں ہوسکتا۔ حکمران” مہنگائی “کے بوجھ سے پریشان عوام کی” دوہائی” سننے کیلئے تیار نہیں۔وزیراعظم کی نصیحت کے بعد زندگی سے بیزارلوگ واقعی قبورمیں سکون تلاش کررہے ہیں۔ملک میں ہوشربامہنگائی کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کے دلخراش واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔تبدیلی سرکار کے کریڈٹ میں کوئی اچھی بات ہوتی تومیں یقینا اس کے بارے میں ضرور لکھتا اوراسے سراہتا۔کپتان کیلئے جہاں سٹینڈ ناگزیرہوتا ہے وہ وہاں یوٹرن کاآپشن استعمال کرنے میں دیرنہیں لگاتااورجہاں یوٹرن ازبس ضروری ہووہاں ڈٹ جاتاہے۔ کپتان نے چار ماہ قبل انتہائی عجلت اورمجرمانہ غفلت کامظاہرہ کرتے ہوئے عمر شیخ کوسی سی پی اولاہورمقررکیا توراقم نے اس تقرری کو انتہائی عاقبت نااندیشانہ فیصلہ قراردیتے ہوئے یوٹرن پرزوردیاتھا تاہم تبدیلی سرکار نے مسلسل چارماہ تک بدترین ناکامی اوربدنامی کاسامنا کرنے کے بعد نیک نام غلام محمودڈوگر کوسی سی پی اولاہورمقررکردیاہے لیکن اس طرح حکومت خفت نہیں مٹاسکتی۔ جس عمر شیخ نے اپنے منصب کے دوام کیلئے کپتان کے بہنوئی کاپلاٹ قبضہ گروپ سے چھڑایاتھا اب وہ خودجی اوآرمیں سی سی پی اوہاؤس کا “قبضہ “چھوڑنے کیلئے تیارنہیں۔عمر شیخ کی “زبان درازیوں ” اور” فداکاریوں “کے نتیجہ میں لاہورپولیس کے وقاراورپیشہ ورانہ کردارکی” تباہ کاریوں ” کی مذمت کرنیوالے توبہت ہیں لیکن مرمت کیلئے یقینا غلام محمود ڈوگر کوچندماہ کا وقت اوربھرپورمینڈیٹ د ینا ہوگا۔
میں نے پرجوش اورپرعزم غلام محمودڈوگرسے ملاقات کے دوران ان کے ظاہروباطن میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا،شہریوں کی خدمت ا ور حفاظت کیلئے ان کی وفاداری جبکہ فرض منصبی کی بجاآوری کے دوران اِنکساری ان کاطرہّ امتیاز ہے۔وہ شہریوں میں عزت اورآسانیاں تقسیم کرنے کے خواہاں اوراس کیلئے کوشاں ہیں۔غلام محمودڈوگرکے کام کی” رفتار”اوران کی” گفتار” جبکہ ان کی باوفااورباصفا اشفاق احمدخان کے ساتھ مثالی پیشہ ورانہ ہم آہنگی دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے وہ چندماہ میں لاہورپولیس کوچارماہ پہلے والی نارمل اورفعال پوزیشن پرلے آئیں گے۔میں سمجھتاہوں پنجاب کے سابقہ آئی جی حضرات حاجی حبیب الرحمن،محمدطاہر جبکہ سابقہ سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس اوربی اے ناصر اپنے بعد ان عہدوں پرآنیوالے آفیسرز کیلئے رول ماڈل ہیں،لاہورمیں بحیثیت سی سی پی او کیپٹن(ر)محمدامین وینس اوربی اے ناصر کے ادوارشاندار تھے،پولیس کلچر میں بہتری کیلئے ان دونوں کی اصلاحات قابل رشک اورقابل تقلید ہیں۔لاہور کے موجودہ مستعد سی سی پی او غلام محمودڈوگراورانتھک ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان سے پروفیشنل آفیسرز کاشانداراورجاندارٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے میں کامل ایقان اورمثبت گمان سے کہتاہوں یہ دونوں آفیسرز اپنے ٹیم ممبرز ابراراحمدخلیل،احسن سیف اللہ،سردارموارہن خان لغاری،وقارشعیب قریشی،امین بخاری،عاصم افتخارکمبوہ، صاعدعزیز،دوست محمد،صفدررضاکاظمی،جمشید شاہ،مستحسن شاہ،حسن عزیز،ذوالفقارعلی بٹ،میاں لیاقت علی،فاروق اصغراعوان،مدثراللہ خان،محمدعتیق ڈوگر،راناارحم،غلام عباس،عمران قمرپڈانہ،اسد عباس،شیخ حماداورسیّد سہیل اخلاق سے مخلص ٹیم ممبرزاور مخصوص ٹیم ورک کی صورت میں یقینی طورپر لاہورپولیس کوبندگلی سے باہر نکال سکتے ہیں۔غلام محمودڈوگر کی تقرری سے لاہورپولیس کا مورال بہت تیزی سے بلندہورہاہے جو ان کے سابقہ پیشروعمر شیخ کے جاہلانہ، جارحانہ اورمنفی رویوں کے سبب زمین بوس ہوگیاتھا۔نوازشریف کے بعداب عمر شیخ بھی ہرکسی سے پوچھتا پھررہا ہے،”مجھے کیوں نکالا”۔جولوگ فرعون کے پیروکارہیں وہ نوازشریف اورعمرشیخ کا انجام ضروریادرکھیں۔عمرشیخ ہرقدم ذاتی پسندناپسندکی بنیادپراٹھاتا اوراپنے ماتحت آفیسرز اوراہلکاروں کوانتقام کانشانہ بناتارہا۔میں سمجھتا ہوں دعاملے نہ ملے خودکو بددعا سے بچاناضروری ہے،عمر شیخ کوبددعاؤں نے ڈبودیا۔عمر شیخ کے فیصلے “انتظامی” نہیں “انتقامی” تھے لہٰذاء اس کے تنازعات سے بھرپور اقدامات کو فوری اورپوری طرح رول بیک کیاجائے۔فاروق اصغراعوان ایک زیرک اورتجربہ کار ایس ایچ اوہونے کی حیثیت سے آپریشن ونگ کے ماتھے کاجھومر ہیں،ان سے کسی چیلنجز سے بھرپورتھانہ میں کام لیا جائے۔
غلام محمودڈوگر نے لاہورمیں کئی دہائیوں سے فعال قبضہ گروپس سمیت سماج دشمن عناصر کی گرفت کیلئے نقارہ بجادیا ہے،اشفاق احمدخان بھی اس اہم ترین مہم کی کامیابی کیلئے پیش پیش ہیں۔تاہم اس بارقبضہ مافیاکیخلاف منظم اورموثر مہم کاحشر ماضی میں شروع ہونیوالی مہم سے مختلف ہوناچاہئے۔ماضی میں عارضی طورپرشروع ہونیوالی مہم کسی منطقی انجام کے بغیر ختم ہوجایاکرتی تھی اوراپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپے بیٹھے سماج دشمن عناصر پہلے سے زیادہ نڈراورطاقتورہوکر معاشرے کودوبارہ اپنی گرفت میں لے لیا کرتے تھے۔اگراس بار بھی یہ مہم محض ایک ناکام مہم جوئی بن کررہ گئی توشہریوں کاپولیس پرسے اعتمادپوری طرح اٹھ جائے گاجبکہ شرپسندعناصر بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدیدشرانگیز ی کے ساتھ شہریوں کیلئے زندگی بوجھ بنادیں گے۔ان مافیا زکو چندماہ کیلئے گرفتار یا منتشر کرنا کوئی پائیدار حل نہیں بلکہ انہیں مستقل بنیادوں پرکچلنے کی ضرورت ہے۔ہمارے اسلامی معاشرے میں خواتین کا باپ کے ورثہ میں سے شرعی حق سلب کرلیا جاتا ہے،جس کے نتیجہ میں وہ زندگی بھرمتعدد مسائل ومصائب کاسامناکرتی ہیں اس سلسلہ میں بھی سخت قانون بنانے اور پولیس کومزید اختیارات دینے کی اشدضرورت ہے۔قبضہ مافیا کے ساتھ ساتھ ان نام نہاد شرفاء کو بے نقاب اور ان کامحاسبہ کرنے کیلئے بھی خصوصی سیل بنایاجائے جواپنی بہنوں اوربیٹیوں کاحق ہڑپ کرجاتے ہیں۔
غلام محمودڈوگر اوراشفاق احمدخان روزانہ کی بنیادوں پرکسی نہ کسی تھانہ کاسرپرائزوزٹ ضرورکریں اوروہاں سائلین کے ساتھ ساتھ اہلکاروں سے بھی ان کے نجی،انفرادی اوراجتماعی محکمانہ مسائل پوچھیں۔متعدد تھانوں کی حالت زارانتہائی ناگفتہ بہ ہے،وہاں اہلکاروں کوشب وروزتنگ وتاریک اوربدبودارکمروں میں رہناپڑتاہے لہٰذاء اس پراگندہ ماحول میں سائلین کوانصاف کی فراہمی کا صحتمندکام نہیں کیاجاسکتا۔تھانوں میں تعینات اہلکاروں کو درپیش صحت اوردوسرے گمبھیر مسائل کاپائیدارحل تلاش کئے بغیر ان سے شہریوں کی انتھک خدمت کی امید کرنابے سود ہے۔لاہوراورپنجاب سمیت چاروں صوبوں میں تھانوں کی جدیدطرز پرتعمیر از بس ضروری ہے۔سوشل میڈیا پرمتحرک کچھ دانشور لاہورمیں بیٹھ کر نیویارک اورلندن پولیس کی مثال دیتے ہوئے انہیں دستیاب جدید سہولیات سمیت معاشی وسائل اوراپنے ہاں پولیس کودرپیش پیچیدہ مسائل کافرق کیوں بھول جاتے ہیں۔غلام محمودڈوگر اوراشفاق احمدخان اپنے اہلکاروں کی تربیت اوران کے رویوں میں تعمیری تبدیلی کے معاملے میں متفق اورمستعد ہیں،میں سمجھتا ہوں اگرڈاکٹرز اورپولیس اہلکاراپنے پاس آنیوالے بیماراور پریشان شہریوں کی بات ہمدردی اوردلچسپی کے ساتھ سن لیا کریں توان کا دوستانہ رویہ ان کے درد کی دوا اورزخم کامرہم بن جائے گا۔پولیس اہلکاروں کے رویوں کی تبدیلی کیلئے حکام کوبھی ان کے ساتھ اپنے رویوں میں ” نرمی” اور”گرمی” پیداکرناہوگی،اس گرمی سے مراد” گرمجوشی” ہے۔اگرپولیس حکام اپنے ماتحت کواپناغلام سمجھنا چھوڑدیں تویقینا اہلکاروں کا شہریوں کے ساتھ رویہ بھی بہت بہتر ہوجائے گا۔میں نے متعدد اہلکاروں کواپنے اعلیٰ حکام کاغصہ سائلین پراتارتے ہوئے دیکھا ہے۔اقتدار کے ایوانوں اوردوسرے اداروں کی طرح پولیس میں بھی رشوت کاراج ہے،اہلکاربھی چھٹیوں سمیت اپنے جائزامورکیلئے اپنے پیٹی بھائیوں کورشوت دیتے ہیں لیکن ہزاروں اہلکارابھی تک اس لعنت سے اپنادامن بچائے ہوئے ہیں لہٰذاء انہیں ایک لاٹھی سے ہانکنا مناسب نہیں۔پولیس کوتفتیشی ضروریات کیلئے جدیدسہولیات اور وسائل کی فراہمی تک شہریوں کو رشوت سمیت تھانہ کلچر سے منسوب دوسرے مسائل سے نجات نہیں ملے گی۔