کھیوڑہ نمک کی دوسری سب سے بڑی کان ۔۔۔۔ خاور نیازی

namak.jpg
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہوا ہے ۔بلاشبہ ہمارے پہاڑ محاورتاََ نہیں بلکہ حقیقتاََسونا اگلتے ہیں ۔ کوہستانی نمک کی دولت سے مالا مال کھیوڑہ کے پہاڑ صدیوں سے ''گلابی سونا‘‘اگل رہے ہیں ۔کھیوڑہ کی اس کان کو ''زمینی عجائب گھر‘‘بھی کہتے ہیں ۔
کھیوڑہ نمک کی کان پنجاب کے ضلع جہلم میں پنڈ دادن خان سے تین کلو میٹر ، اسلام آباد سے 160 کلو میٹراور لاہور سے 250 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔یہ جنوبی ایشیاء میں قدیم ترین اور دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے ۔ دنیا میں خوردنی نمک کی سب سے بڑی کان پولینڈ کے جنوبی کریکو شہر کے قریب ولیچکا کے مقام پر واقع ہے ۔ 300کلو میٹرلمبی یہ کان زیر زمین 110کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے ۔ اس کی 19منزلوں میں سے 11 زیر زمین ہیں ۔ ذخیرے کی بلندی 2200فٹ سے 4490 فٹ تک ہے یہاں سے سالانہ 3.7لاکھ ٹن نمک نکالا جاتا ہے ۔ویسے تو بہادر خیل ، کالاباغ ، نری پنوس ، کرک اور مالین وغیرہ سے بھی کافی نمک حاصل ہوتا ہے لیکن اگر ان تمام علاقوں کا نمک اکٹھا بھی کر لیا جائے تو کھیوڑہ کی نمک کی پیداوار ان سے کہیں زیادہ ہو گی ۔ اس ذخائر کی مقدار کا اندازہ اس بات سے لگا ئیں کہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی خزانہ ختم نہیں ہوا ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق نمک کے ذخائر8 کروڑ ٹن سے لیکر 60 کروڑ ٹن تک ہو سکتے ہیں۔
کوہستانی نمک کایہ پہاڑی سلسلہ پوٹھو ہار (پنجاب) میں واقع ہے ۔یہ کمان کی شکل سے مشابہت رکھتا ہے جو دریائے جہلم پر ٹلہ جوگیاں اور بکڑالہ کے پہاڑوں سے شروع ہو کر کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ کے دامن پر اختتام پذیر ہوتاہے ۔ قدیم کتابوں میں اس کا ذکر ''کوہ بالنات‘‘ اور'' کوہ جودی‘‘ کے نام سے بھی ملتا ہے ۔ یہ نمک ''ہائی گریڈ ‘‘کوالٹی کا درجہ رکھتا ہے۔ خام حالت میں بھی نمک کی مقدار98فیصد یا اس سے زیادہ ہوتی ہے ۔
سکندر اعظم کے گھوڑوں نے نمک دریافت کیا
یہ روایت مشہور ہے کہ کھیوڑہ میں نمک کی دریافت 320قبل مسیح میں اس وقت ہوئی جب دریائے جہلم کے کنارے سکندر اعظم اور راجہ پورس کے مابین جنگ کے دوران سکندر اعظم کے گھوڑے گھاس چرتے چرتے اچانک پتھروں کو چاٹتے پائے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر کھیوا نامی فوجی سپاہی نے اپنے کمانڈر کو اطلاع دی جس سے نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا ۔ اسی مناسبت سے علاقے کا نام ''کھیوا‘‘ مشہور ہوا جو بگڑتے بگڑتے کھیوڑا بن گیا۔ہم مذاقاََ کہہ سکتے ہیں کہ نمک کی دیافت سکندر کے گھوڑوں نے کی ۔ بعدازاں یہ کانیں جنجوعہ راجہ خاندان نے خرید لیں ۔
۔12 محنت کش شہید
مارچ 1849ء میں برطانیہ نے نمک نکالنے کا کام سائنسی بنیاد وں پر شروع کیا ۔1872ء میں مائننگ انجینئر ڈاکٹر وارتھ نے ذخائر تک براہ راست رسائی کے لئے بڑی کان کی کھدائی شروع کروائی ۔1872میں برطانوی حکومت نے نمک کی مقررہ مقدار کے نہ نکالنے تک کارکنوں کو کان کے اندر بند کرنے کا کالا قانون جاری کیا۔ سینکڑوں مرد، خواتین اور بچے دن بھر کان کے اندر ہی قید رہتے تھے ۔1872ء سے 1876 تک کان کنوں نے کئی مرتبہ اس ظالمانہ سلوک کے خلاف کام روکا تو ایک روز کان کے چیف انجینئر نے نئی دہلی سے فوج طلب کر لی جس نے 12 کان کنوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے شہید کر ڈالا گیا۔
کھیوڑہ شہر کی بنیاد
کان کن ارد گرد کے علاقوں سے آیا کرتے تھے ، ذرائع آمدورفت کے فقدان کی وجہ سے انتظامیہ نے 1872 ء میں کان کنوں کو مقامی طور پر آباد کرنے کا پروگرام بنایا ۔انہیں کان کے ارد گرد رہائش کی سہولتیں مہیا کیں اور یوں 14مارچ 1876 ء کو کھیوڑہ شہر کی بنیاد رکھی گئی۔
تاج محل، مینار پاکستان ، چاغی
کے پہاڑ اور اسمبلی ہال کے ماڈلز
ہر سال تین لاکھ تک سیا ح پاکستان اور بیرون ممالک سے یہ کان دیکھنے آتے ہیں۔ بے شمار ماڈلز نمک سے اس خوبصورتی سے تیار کئے گئے ہیں کہ سیاح کھیوڑہ کان کے اندر داخل ہوتے ہی ششدر رہ جاتے ہیں اور فرد خود کو ایک نئی دنیا میں محسوس کرتا ہے ۔ روشنیوں سے جگمگاتے نمک کی اینٹوں سے بنائے گئے خوبصورت تاج محل، شیش محل، مینار پاکستان ، چاغی کے پہاڑ ، بادشاہی مسجد، کرسٹل پیلس اور اسمبلی ہال کے ماڈلز دل موہ لیتے ہیں ۔ کان کے اندر بجلی کی ایک ٹرین بھی چلتی ہے جو سیاحوں کو نیچے بنے ہوئے چاندنی چوک میں چھوڑتی ہے ۔ چلتی ٹرین کے ارد گرد قوس وقزح کے رنگ بکھیرتی بجلی کی روشنی سے مزین دیواریں سیاحوں کو مسحور کر دیتی ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سیاحوں کی جوق در جوق آمد سارا سال جاری رہتی ہے ۔
کھیوڑہ شہر کی تاریخی عمارات
کھیوڑا شہر میں سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکزسرکاری ریسٹ ہاؤس ( 1876ء )، ریلوے سٹیشن (1890ء )، سینٹ جان چرچ (1899ء)، امپیریل کیمیکل انڈسٹریز (آئی سی آئی ) کی عمارت (1938ء ) اور کوٹ منگل سکول (1946ء ) میں تعمیر کئے گئے تھے، پرانے زمانے میں نمک کو بارود سے اڑانے کیلئے جو توپ استعمال کی جاتی تھی وہ بھی کان کے اندر موجود ہے ۔ سیاحوں کیلئے کی کشش رکھنے والی یہ عمارتیں عدم توجہ کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔1916 ء میں یہاں نمک نکالنے کے اوزار بنانے کے لئے ایک ورکشاپ ''لوہار خانہ‘‘ بنائی گئی تھی ۔ وہاں نئے اوزار بنانے اور پرانے اوزاروں کی مرمت کی جاتی تھی ۔ ''لوہار خانہ ‘‘کی خوبصورت عمارت بھی عدم توجہی کے باعث ٹوٹ پھوٹ چکی ہے ۔ لوہار خانہ میں رکھے نوادرات بھی ضائع ہو رہے ہیں۔
۔۔2013ء سے ایک منصوبہ التوا کا شکار
یہاں پردمہ کے مریضوں کیلئے بیس بستروں پر مشتمل ایک قدیم اسپتال بھی موجود ہے ، بدقسمتی سے آجکل عدم توجہی کے باعث یہ ہسپتال ویران ہوتا جا رہا ہے ۔اس سے زیادہ عدم توجہی اور کیا ہو گی کہ 2013ء میں یہاں ایک میوزیم کا افتتاح کیا گیا تھا لیکن محض بیس لاکھ روپے کی حقیر سی رقم ابھی تک جاری نہ ہونے سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔رابطہ سڑکوں کی زبوں حالی کی وجہ سے سیاحوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے۔