۔2035ء ۔۔۔۔۔ محمد اظہار الحق
قبر کھودی جا چکی تھی۔گور کن منتظر تھے۔ میت کے ورثا‘اعزہ و اقارب ‘ جنازہ پڑھ چکنے کے بعد یہیں تھے۔ یہ بھی عجیب دردناک حقیقت ہے‘ مرنے والے سے جتنی زیادہ محبت ہو‘ اتنی ہی خواہش اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالنے کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پھول بھی لائے تھے کہ قبر پر چڑھائیں گے۔
ایک سرکاری اہلکار جو وہاں موجود تھا‘ تدفین کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔اس نے انتظار کرنے کوکہا تھا۔ سب حیران تھے کہ اس اہلکار کو کس نے بھیجا ہے؟یہ تدفین کے عمل کو کیوں روک رہا تھا۔ سب اُس پر اپنی پریشانی اور تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔مگر اہلکار کے چہرے پر ایک سرکاری بے نیازی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ وہ ہر بار ایک ہی جواب دیتا کہ اوپر سے این او سی آنا ہے۔ اس کے بعد ہی تدفین کی اجازت ملے گی۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد ‘ جب لوگوں کے اعصاب جواب دینے لگے اور اس سے سخت لہجے میں بات کی گئی تو اس نے یہ وحشت ناک خبر دی کہ یہ قبرستان عالمی اداروں کے پاس رہن رکھا گیا ہے۔ اس کے عوض ملک نے قرضہ لیا تھا۔ قرضہ ادا نہ ہو سکا۔ نتیجے میں عالمی ادارے نے قبرستان پر اپنی ملکیت جتائی اور پٹواری نے اس کی ساری زمین عالمی ادارے کے نام کر دی۔ اب یہ عالمی ادارہ ہر قبر کا معاوضہ لیتا ہے اور اس کے بعد این او سی جاری کرتا ہے۔ بس اسی این او سی کا انتظار ہے!
یہ 2035 ء ہے۔ ہم آپ کو چودہ برس پیچھے یعنی 2021 ء میں لیے چلتے ہیں۔ اُس سال دو ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے کہ ملک کی قسمت ہی بدل گئی۔ پہلا واقعہ یہ ہوا کہ ہمارا ایک ہوائی جہاز جو مسافر لے کر پاکستان واپس آرہا تھا‘ ملائیشیا کے ہوائی اڈے پر ضبط کر لیا گیا۔ مسافر وں کو جہاز سے اتار دیا گیا۔ جہاز کی مالک کمپنی سے کرائے کا کوئی جھگڑا تھا ‘ ملائیشیا کی عدالت نے جہاز کے بارے میں فیصلہ دیا اور مقامی اتھارٹی نے جہاز قبضے میں لے لیا۔ مسافروں کی وہی گَت بنی جو ہمارے ایک جاننے والے شیخ دوست کی بیوی بچوں کی بنی تھی۔ وہ اسلام آباد سے‘ اپنی فیملی کی معیت میں اپنے آبائی قصبے جاتا تو بس پر جاتا۔ ایک بار اس نے کچھ معاشی خوشحالی دیکھی تو ایک پک اَپ ڈبہ خرید لیا اور گھر والوں کو خوش خبری دی کہ آئندہ بس پر دھکے کھانے کے بجائے اپنی سواری پر جایا کریں گے۔ فیملی خوش ہوئی کہ اپنی سواری کا مزہ ہی اور ہے۔ جہاں چاہیں چائے پانی کے لیے رُک جائیں۔ جس دن جانے کا پروگرام تھا ‘ بچے صبح ہی سے خوش تھے۔ ڈبے میں سوار ہو کر آبائی قصبے پہنچے۔ ڈبے کو گھر کے سامنے گلی میں کھڑا کیا گیا۔ گھر والے بھول گئے تھے کہ شیخ بچہ شیخ ہی ہے۔ وہیں کسی نے ڈبہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور جو قیمت لگائی وہ قیمت خرید سے تین ہزار روپے زیادہ تھی۔ شیخ بچے نے تین ہزار کا نفع دیکھا تو وہیں ‘ کھڑے کھڑے ڈبہ بیچ دیا۔ واپسی پرگھر والوں کو حسبِ سابق بس کے ذریعے لایا۔ بیوی سارا راستہ کوستی رہی اور بُرا بھلا کہتی رہی۔ ضبط شدہ جہاز کے مسافروں کو متبادل فلائٹس کافی خواری کے بعد ملیں۔ کچھ کو دبئی اور کچھ کو قطر کے راستے!اس اثنا میں مبینہ طور پر کھانا ملا نہ رہائش!کچھ کا سامان ہی نہ آیا۔دوسرا بڑا اور تاریخی واقعہ یہ پیش آیا کہ پاکستان کے سب سے بڑے پارکوں میں سے ایک پارک‘ فاطمہ جناح پارک‘ کو حکومت نے گروی رکھ کر پانچ سو بلین روپوں کا قرضہ بانڈز کی صورت میں لیا۔ اس پارک کا رقبہ 759 ایکڑ یعنی چھ ہزار کنال سے زیادہ کا تھا۔
یہ آخری قرقی نہ تھی۔اس کے بعد یہ سلسلہ تھم نہ سکا۔ ایک ایک کر کے سارے پارک گروی رکھ دیے گئے۔ ایک قرضہ اتارنے کے لیے دوسرا قرضہ لینا پڑتا۔دوسرے قرضے کے لیے کچھ اور رہن رکھنا پڑتا۔ معاشی سرگرمی تو ملک میں تھی کوئی نہیں۔ قرض کی مے پینے کے علاوہ چارہ کوئی نہ تھا۔پارکوں کے بعد کھیل کے میدانوں کی باری آئی۔ پھر تعلیمی اداروں کی عمارتیں گروی رکھی جانے لگیں۔ یہ بہت خطرناک ثابت ہوا۔ عالمی اداروں نے سکولوں کالجوں کے نصاب اپنی مرضی سے وضع کیے۔ فیسیں ڈبل کر دیں۔محب وطن اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ طلبہ و طالبات اور ان کے والدین نے احتجاجی جلوس نکالے۔ ان کے خلاف مقدمے دائر کردیے گئے۔ کچھ طلبہ کو نکال دیا گیا۔ بغاوت رفتہ رفتہ فرو ہو گئی۔ پالیسی انہی کی چلنی تھی جن کے پاس عمارتوں کی ملکیت تھی!پھر ہسپتال‘ پہلے بڑے بڑے پھر چھوٹے‘ گروی رکھ دیے گئے۔ اس کے نتائج جو عوام کو بھگتنا پڑے خوفناک تھے۔ اب گراں ترین ادویات خریدنا پڑتی تھیں۔ میڈیکل آلات بھی مالکوں کی پسندیدہ کمپنیوں سے خریدنا ہوتے تھے۔
قرضے مزید لیناپڑ رہے تھے۔ کسی ابوالہول قسم کے درباری نے حکومت کو تجویز دی کہ عبادت گاہیں کثیر تعداد میں ہیں اور بڑی بڑی! انہیں رہن رکھاجائے۔ مگر باقی اہل دربار نے سخت مخالفت کی اور عوام کے رد عمل سے ڈرایا۔یوں حکومت نے یہ احمقانہ تجویز رد کر دی۔ بڑی بڑی شاہراہیں ‘ ہوائی اڈے اور ریلوے سٹیشن پہلے ہی رہن رکھے جا چکے تھے۔ آخر یہ طے پایا کہ شہروں اور قصبوں کے گلی کوچے گروی رکھ دیے جائیں۔ رکھ دیے گئے۔ ان کے عوض قرضے بھی مل گئے مگر نئے مالکوں نے گلیوں‘ کو چوں کے نام تبدیل کرا دیے۔ غالب سٹریٹ ‘ ابراہام لنکن سٹریٹ بن گئی۔ فیض روڈ ‘ ایمرسن روڈ میں بدل گئی۔ عالم خان روڈ کا نام ‘جانسن روڈ ہو گیا۔محلّوں کے محلّے راتوں رات اپنی تاریخ‘ اپنی ثقافت سے محروم ہو گئے۔ سچ ہے جس کا مال‘ اسی کی ثقافت! جس کا زر‘ اسی کا زور ! پھر ایک دن پاکستانی ویزا گروی رکھ دیا گیا۔ یعنی اس کے عوض جس ملک نے قرض دیا اُس ملک کے مکین بغیر ویزا کے‘ آجا سکیں گے۔ابتدا میں تو یہ شرط بے ضرر سی لگی مگر رفتہ رفتہ اس کے عواقب آشکار ہونا شروع ہوئے۔ سفید فام اجنبیوں سے بازار چھلکنے لگے۔ پلازے‘ دکانیں‘ مال‘ مارکیٹیں ان بدیسیوں نے خرید لیں اور رہی سہی معیشت ‘ گھر بیٹھے ہی بے گھر ہو گئی۔
اب حال یہ ہو گیا کہ روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی سرکار کے پلے کچھ نہ رہا۔ مزید قرض لینا ناگزیر ہو گیا۔سٹیٹ بینک پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر چکا تھا۔ عام کمرشل بینک کب کے دیوالیہ ہو چکے تھے۔ دربار میں مسئلہ اٹھایا گیا۔ کئی دن سوچ بچار ہوتی رہی۔ یہ تجویز بھی زیر غور آئی کہ قصرِ صدارت ‘ وزیر اعظم ہاؤس اور گورنروں کی قیام گاہیں رہن رکھ دی جائیں مگر اس پر بھی عوام کے رد عمل سے خوف آیا اور یہ تجویز مار دی گئی۔ ایک جغادری قسم کے درباری نے یہ تجویز اپنی چادر سے نکالی کہ قبرستان گروی رکھ دیے جائیں۔جب اس تجویز کی اس نے وضاحت کہ تو بے تحاشا داد دی گئی۔ واہ واہ! مرحبا کے ڈونگرے برسنے لگے۔ اس نے بتایا کہ ایک تو قبرستانوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے۔ ہر قصبے میں ‘ ہر شہر میں کئی کئی قبرستان ہیں۔ ہر گاؤں میں کم از کم ایک تو ضرور ہے۔ یوں قرضے کے رقم بھاری ملے گی اور کچھ عرصہ تک مزید قرض کی ضرورت نہیں پڑے گی۔دوسرا نکتہ یہ تھا کہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ قبرستانوں میں مردے ہی تو پڑے ہیں‘ رہن رکھ بھی دیے گئے تو کیا فرق پڑے گا۔ یوں پارک سے شروع ہونے والا رہن کا کھیل قبرستانوں تک پہنچ گیا۔ اب ہر میت کی تدفین کا این او سی سمندر پار سے آتا ہے۔