براڈشیٹ کی داستان ..... سعد رسول

براڈشیٹ کی داستان اور گزشتہ دو دہائیوں پر محیط اس کی دلچسپ تاریخ نے ملکی سیاست میں ایک نیا طوفان برپا کر دیا ہے۔ اس مرحلے پر کسی کو بھی واقعتاً یقین نہیں کہ فریقین کے مابین معاہدے کے حوالے سے تعلقات میں کیا ہوا تھا‘ یا اس کے تصفیے اور اس کے بعد ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے معاملات کو ہمارے حکام نے کس طرح نمٹایا۔ ہمیں پورے یقین کے ساتھ صرف اتنا معلوم ہے کہ اس حوالے سے جو کچھ بھی کیا گیا‘ اس سے ریاستِ پاکستان کو مالی نقصان پہنچا اور اس کی ساکھ متاثر ہوئی جبکہ لوٹی گئی دولت میں سے کچھ بھی بازیاب نہ ہو سکا۔ تصفیے پر مبنی (غیر منکشف) فیصلوں اور (عوامی طور پر دستیاب) غیرملکی فیصلوں سے متعلق میڈیا رپورٹنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے آئیے ہم ان حقائق اور حالات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کے نتیجے میں براڈشیٹ کا سارا معاملہ پیش آیا۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق جون 2000ء میں نیب نے آئل آف مین میں قائم ایک کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی اور ایک اور کمپنی انٹرنیشنل ایسیٹ ریکوری لمیٹڈ (International Asset Recovery Ltd) کی خدمات حاصل کیں۔ وہ پرویز مشرف کا دورِ حکومت تھا اور ان کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کا مقصد سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری سمیت 200 پاکستانیوں کے پوشیدہ اثاثوں کا سراغ لگانا تھا۔ خاص طور پر نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کا مقصد شریف خاندان کے اثاثوں کی چھان بین کرنا تھا‘ جبکہ بھٹو خاندان کے اثاثوں کا سراغ لگانے کا کام انٹرنیشنل ایسیٹ ریکوری لمیٹڈ کو سونپا گیا۔ طے شدہ معاہدے کے مطابق ان کمپنیوں کو ''منتقلی کیلئے دستیاب رقم‘‘ کا 20 فیصد بطور معاوضہ وصول کرنے کا حق حاصل تھا۔ 2003ء میں نیب نے براڈشیٹ اور آئی اے آر کے ساتھ معاہدہ اس بنیاد پر ختم کر دیا کہ ان کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں کی جا رہی۔ اس کے نتیجے میں فریقین کے مابین قانونی چارہ جوئی شروع ہو گئی۔
متعلقہ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ براڈشیٹ کولوریڈو کے ایک تاجر مسٹر جیری جیمز نے قائم کی تھی۔ بعد ازاں اس کمپنی کو کچھ مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑاجس کے نتیجے میں اسے 2005ء میں تحلیل کردیا گیا۔ پھر سپانسرز نے کچھ رقم لگائی تو یہ بحال ہو گئی۔ جن دنوں براڈ شیٹ کو (آئل آف مین میں) مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا‘ مسٹر جیمز نے کولوریڈو ہی میں اسی نام (براڈشیٹ ایل ایل سی) کے ساتھ ایک الگ کمپنی قائم کر لی تھی۔ 2008 ء میں یہ کمپنی‘ جو نیب اور ریاست پاکستان کے ساتھ اصل معاہدے کا فریق نہیں ہے‘ ان دعووں کے ساتھ بات چیت کیلئے سامنے آئی جو اصلی براڈشیٹ کے پاکستان سے متعلق تھے‘ اورایک بار پانچ ملین ڈالر کی پیمنٹ بھی کی گئی؛ تاہم قانون کی قابل اطلاق دفعات کے مطابق پانچ ملین کی یہ ادائیگی جو 'غلط‘ براڈشیٹ کو کی گئی‘ اصل مسئلے کا حل ثابت نہ ہو سکی۔ یہ حقائق اور فریقین کے مابین قانونی جھگڑے کے وہ معاملات ہیں جن کے نتیجے میں براڈشیٹ ایل ایل سی (آئل آف مین والی) اور ریاست پاکستان کے مابین ثالثی کی کارروائی کی گئی۔
دستیاب میڈیا رپورٹوں کے مطابق‘ ثالثی کی اس کارروائی میں ہونے والے فیصلے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نیب نے متعلقہ معاہدے کے تحت دو ادائیگیاں کی تھیں۔ 1.5 ملین امریکی ڈالر کی ایک ادائیگی جیری جیمز کے اکاؤنٹ کو کی گئی‘ جس نے (آئل آف مین میں رجسٹرڈ کمپنی کے بجائے) کولوریڈو میں ایک جعلی ''براڈشیٹ ایل ایل سی‘‘ قائم کر رکھی تھی۔ ثالثی عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک غلط کمپنی کو یہ ادائیگی ہونا کوئی سادہ غلطی نہیں تھی اور یہ کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اقدام ہے‘ جو اصلی براڈشیٹ ایل ایل سی کو مالی طور پر دھوکہ دینے کیلئے ڈیزائن کیا گیا۔اس کے بعد ہوا یہ کہ 2011 ء میں مسٹر جیمز مبینہ طور پر پیرس کے ایک ہوٹل کی پانچویں منزل کی بالکونی سے کودنے کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے اور اس طرح‘ اس کو کی گئی ادائیگی‘ اس کی طرف سے پیش کردہ معاملات اور جاری تنازع میں اس کی گواہی اب دستیاب نہیں ہیں۔
ان حالات میں نومبر 2018ء میں لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربٹریشن (ایل سی آئی اے) نے نیب کے خلاف 17 ملین ڈالر جرمانے کا فیصلہ سنا دیا۔ بعد ازاں ایوارڈ میں مزید 30 لاکھ ڈالر مقدمے کی لاگت کی مد میں اضافہ کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مارچ 2019ء میں لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربٹریشن کی جانب سے حتمی 20 ملین ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ چونکہ نیب نے مطلوبہ رقم ادا نہیں کی تھی؛چنانچہ اس رقم پر سود جمع ہوتا رہاجو دسمبر 2020 ء تک مجموعی طور پر 28.7 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔
یہ معاملہ بالآخر برطانوی ہائی کورٹ کے سامنے اپیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ مذکورہ عدالت نے براڈشیٹ ایل ایل سی (آئل آف مین والی) کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ عدالتی حکم کے پیش نظریونائیٹڈ بینک لمیٹڈ برطانیہ نے 29 دسمبر 2020ء کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ایک خط لکھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ وہ ڈیبٹ اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرے تاکہ مذکورہ ادائیگی ممکن ہو سکے۔ بینک نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو یہ بھی بتایا کہ 30 دسمبر 2020ء تک ادائیگی کی تحریری رسیدیں موصول نہ ہونے کی صورت میں بینک کے پاس ادائیگی کی رقم ہائی کمیشن کے کھاتوں سے یکطرفہ طور پر منہا کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
ریاست پاکستان اور حکومت کو اس کہانی یا داستان‘ جس کے کچھ حقائق واضح نہیں ہیں‘کی مکمل تحقیقات کرنی چاہئیں۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے مبینہ طور پر ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے جس کا سربراہ معزز جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کو بنایا گیا ہے‘ اور اس میں ایف آئی اے کے ایک سینئر ممبر‘ وزیر اعظم کے ذریعے مقرر کردہ ایک سینئر وکیل اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر کے ایک عہدیدار کو شامل کیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق اس انکوائری کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ کسی بھی فرد کو طلب کر سکے اور کسی بھی تنظیم سے ریکارڈ طلب کرے۔ اطلاعات کے مطابق کابینہ نے اس انکوائری کمیشن کو وسیع اختیارات دیے ہیں اور یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ 1: 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ان کمپنیوں کا انتخاب کرنے اور انہیں کام سونپنے کے معاملات کا تعین کرے۔ 2:2003 ء کے ان حالات کا جائزہ لے جن میں براڈشیٹ اور آئی اے آر کے ساتھ طے شدہ معاہدہ منسوخ کیا گیا تھا۔ 3:جنوری 2008ء میں آئی اے آر کے ساتھ تصفیے اور مئی 2008ء میں براڈشیٹ کے ساتھ سیٹل منٹ پر غور کرے۔ 4: جس انداز میں نیب اور ریاست پاکستان نے ایل سی آئی اے کے سامنے ثالثی کی کارروائی اور برطانیہ کے ہائی کورٹ آف جسٹس کے سامنے قانونی چارہ جوئی کا مقابلہ کیا اس کا جائزہ لے۔ اور 5: یہ دیکھے کہ آئی اے آر اور براڈشیٹ کو ادائیگی کرنے کا عمل اور وقت کیا تھا۔
یہ تفتیش ایک چیلنجنگ کام ہوگا۔ اس کے لیے انکوائری کمیشن کو مسودات کا گہرائی تک جائزہ لینے کی ضرورت ہو گی جو دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ قبل کے ہیں اور پاکستان اور بیرونِ ملک افراد سے گواہی حاصل کرنا ہو گی ‘ جن میں سے کچھ اب ریاست پاکستان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوں گے۔یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس مشق سے کوئی معنی خیز نتیجہ نکلے گا‘ اگرچہ‘ جسٹس (ر) عظمت سعید کی موجودگی کی صورت میں یقینا امید قائم ہے؛ تاہم مختلف حوالوں سے یہ مشق کہ پاکستان نے اپنے بین الاقوامی تنازعات کو کس طرح سنبھالنا ہے اور ان کا حل کیا نکالنا ہے‘طویل عرصہ پہلے ہو جانی چاہئے تھی۔