گزرتے لمØ+ÙˆÚº کا ماتم

سنہرے خوابوں کی وادی میں مدتوں ہم نے
کئی مکان بسائے کئی مکیں بدلے
تمام عمر رہا انتظار کا عالم
گزرتے لمØ+ÙˆÚº کا ماتم کیا نڈھال رہے
نہ دوستوں میں کوئی اب نہ دشمنوں میں کوئی
ہمارے ماضی کا ہم سے Ø+ساب Ù„Û’ کر جو
ہمارے سود و زیاں کا لگا کے اندازہ
ہمیں بتائے کہ کیا کھویا ہم نے کیا پایا
بس ایک وقت Ú©ÛŒ ٹھوکر بہ Ø´Ú©Ù„ شام Ùˆ سØ+ر
ہمارے پاؤں میں لگ لگ کے پوچھتی ہے روز
کہاں سے آئے ہو کب تک چلو گے تم یونہی
جواب اس کا بھی ہے اس کے پاس ہی لیکن
سوال کرنے کی عادت سی پڑ گئی ہے اسے
آفتاب شمسی