کبوتر ،چٹھی اورڈاکیا... ۔۔ ایم آر ملک

Postman.jpg
ایک زمانے میں بے روزگار افرادکے گھر والوں کو ڈاکیے کی آمد کا انتظار رہتا تھا
ڈاک،ڈاکیا،چٹھی یاخط، ان الفاظ Ú©Û’ ساتھ ماضی Ú©ÛŒ کتنی ہی خوش رنگ اور خوشگوار یادیںجڑی ہوئی ہیں جن Ú©Û’ بارے میں سوچتے ہوئے نوسٹیلجیا ہونے لگتا ہے ۔’’چٹھی ،ڈھول ،کبوتر‘‘ شاعری Ú©Û’ استعارے ہی نہیں بلکہ Ø+قیقت بھی ہے Û” اس دور میں Ú†Ù¹Ú¾ÛŒ پہنچانے کیلئے کبوتر پیغام رسانی کا کام کیا کرتے تھے Û” کہا جاتا ہے کہ مغل Ø+کمران جلال الدین اکبر Ú©Û’ ساتھ ٹکر لینے والے دُلا بھٹی کیلئے بھی پیغام رسانی کا کام کبوتر ہی کرتے تھے ماضی کا یہ پنجابی گیت بھی شاید اسی تناظر Ú©ÛŒ عکاسی کرتا ہے فلم دلا بھٹی میں نوراں کا کردار لافانی تھا ۔یہ گانا اسی کردار پر فلمایا گیا، بول تھے ØŒ

خط کی روایت تاریخ کے اوراق میں چھپتی جارہی ہے
خطوط کوایک تار میں پرو کر کسی کونے میں دیوار پر لٹکا دیا جاتا تھا ،مائیں خطوط کو آنکھوں سے لگا کر اپنے بیٹوں کو دعائیں دیا کرتی تھیں

واسطہ ای رب دا توں جانویں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پُچاویں وے کبوترا

پیچھے مڑ کے دیکھیں تو مشرق و مغرب کی کتنی ہی باتیں یاد آتی چلی جاتی ہیں۔روزی روٹی کے چکر نے بہت سے پیاروں کو انجانے دیس کی سرزمین کا باسی بنا دیا وہ جس کی بات سننے کیلئے والدین ہمہ تن گوش رہتے ، وہ پردیس کا ہوکر رہ گیا۔ پنڈ کی ٹاہلیوں ،کیکر ،بوہڑ کی چھائوں کو مسکن بنا کر جن دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی جاتی تھی ان کو جدائی کی صلیب پر ٹانک کر انسان شہر کو چلا جاتاہے۔
Û”1980Ø¡ Ú©ÛŒ دہائی تک کورے کاغذ پر لفظ بکھیر کر جب کوئی پردیسی اپنے اØ+باب Ú©Ùˆ خط لکھتا تو لفظوں Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ متمنی اØ+باب Ú©Ùˆ لفظ لفظ سے دیار غیر Ú©Ùˆ اپنا مسکن بنانے والے Ú©ÛŒ خوشبو آتی Û” وصال Ú©ÛŒ طلب نہ کرنے والوں کیلئے یہ لفظ مداوا بن جاتے Û” دوستوں Ú©Ùˆ یاد ہوگا کہ جب وہ سکول سے لوٹتے تھے تو کوئی نہ کوئی گائوں کا ایسا فرد بے تابی سے Ù…Ø+Ùˆ انتظار ہوتا جس Ú©Û’ کسی پیارے کا خط اس Ú©Û’ ہاتھ میں ہوتا۔ گائوں میں اڑوس پڑوس Ú©Û’ گھرانے اور بزرگ اپنے پردیسی پیاروں Ú©Ùˆ خطوط لکھتے، تو یہ خدمت عموماًسکول سے لوٹنے والے سرانجام دیتے ۔وہ وقت بھی یقینا بہت سے قارئین Ú©Ùˆ یاد ہوگا جب کسی اسکول میں Ú©Ùˆ ئی ماسٹر ڈیوٹی پر ہوتا تو کوئی نہ کوئی ان سے خط لکھواتا لیکن ایک مدت سے یہ منظر اب سراب اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے Û” شاید فی زمانہ اس Ú©ÛŒ ضرورت ہی نہیں رہی۔
برسوں پہلے جب چواء نامی گائوں میں کوئی پڑھا لکھا نہ تھا تو خط پڑھوانے کیلئے لوگ ملک خان Ù…Ø+مد Ú©ÛŒ ڈیوڑھی کا رُخ کرتے اور وہ خط Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾ کر ایسے سناتا کہ سننے والے Ú©Ùˆ Ù…Ø+سوس ہوتا کہ خط Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والا سامنے بیٹھا باتیں کر رہا ہے Û” یہ خطوط روشنی کا استعارہ اور قیمتی اثاثہ ہوا کرتے تھے جنہیں ایک تار میں پرو کر کسی کونے میں دیوار Ú©Û’ ساتھ لٹکا دیا جاتا تھا جبکہ مائیں اپنے بیٹوں Ú©Û’ خطوط پڑھتے ہوئے انہیں آنکھوں سے لگا کر دعائیں دیا کرتی تھیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ایک کورے کاغذ پر بکھرنے والے الفاظ اØ+ساس Ú©ÛŒ صورت میں ہمیشہ کیلئے امر ہو جایا کرتے تھے تاہم کسی Ù…Ø+بوب کیلئے یہ الفاظ Ø+ذر جاں بن جایا کرتے تھے اور وہ خط سننے Ú©Û’ بعد باطن Ú©Û’ قلعے میں Ù…Ø+صور تاØ+د نظر تنہائی Ú©Û’ ایسے اØ+ساس میں نظر آتا جس میں کوئی بہت ہی پیاری چیز Ú¯Ù… ہوجاتی ہو۔
ÚˆÚ¾ÙˆÚ©Ú‘ÛŒ Ú©Û’ ناصر علی ملک کہتے ہیں کہ ملک فتØ+ خان Ú©Û’ بعد Ø+اجی اØ+مد شیر ککا عہد Ú¯Ù… گشتہ کا یہ اساطیری کردار خطوط، منی آرڈرز، امتØ+انی نتائج، عید کارڈز، شادی کارڈز، Ù…Ø+بت نامے اور قیامت نامے تقسیم کرتا اور7 سمندر پار اØ+باب Ú©Û’ Ø+الات سے آگاہی کا سبب بنتا۔ اس Ú©ÛŒ طلسمی زنبیل میں چٹھیوں Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں گاؤں والوں Ú©Û’ لئے مسکراہٹیں اور آہ Ùˆ زاریاں ہوا کرتی تھیں۔ گزرتا وقت بہت سی چیزوں Ú©Ùˆ بدل دیتا ہے۔ کئی چیزوں Ú©ÛŒ اہمیت Ú©Ù… ہو جاتی ہے یا ان Ú©ÛŒ جگہ نئی چیزیں Ù„Û’ لیتی ہیں اور ان سے منسلک افسانوی پہلو وقت Ú©ÛŒ دھول میں Ú©Ú¾Ùˆ جاتا ہے۔
سو ہمارے گاؤں کا یہ پوسٹ مین بھی سمے Ú©ÛŒ دھول میں Ú¯Ù… ہو گیا۔ خط Ú©ÛŒ لذت وہی جان سکتے ہیں جنہوں Ù†Û’ خطوط Ù„Ú©Ú¾Û’ اور وصول کیے ہوں۔ یہ ان روشن زمانوں کا ذکر ہے جب کوئی پردیسی باقاعدگی Ú©Û’ ساتھ گاؤں میں اپنے پیاروں Ú©Ùˆ خطوط لکھتا۔ عید کارڈ بھیجتا Û” پردیسیوں Ú©Û’ خطوط Ú©Û’ انتظار میںان Ú©Û’ پیارے ہر روز گاؤں Ú©Û’ داخلی راستے پر Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو کر اس بوڑھے ڈاکیے کا انتظار کرتے جو کئی کلومیٹر دور ڈاک خانہ سے ڈاک Ù„Û’ کر گائوں آتا۔Ø+اجی اØ+مد شیر ہمارے خوبصورت گاؤں کا ایک بیبا کردار تھا۔ جس Ú©ÛŒ مرنجان مرنج شخصیت Ú©Ùˆ ہمارے گاؤں میں افسانوی اہمیت Ø+اصل تھی۔ جب وہ خطوط سے بھرا اپنا تھیلا سنبھالے، بوسیدہ سائیکل پر سوار گاؤں Ú©ÛŒ Ú©Ú†ÛŒ سڑکوں اور پگڈنڈیوں سے گزرتا تو ہر کسی Ú©ÛŒ نظروں کا مرکز ہوتا۔ گویا کہ لوگ اس Ú©Û’ منتظر ہوں۔ بلکہ ہم جیسے تو بہت سے ’’چچا ڈاکیا ‘‘کی آواز دے کر متوجہ کرتے تا کہ اگر کوئی خط یا منی آرڈر وغیرہ اس Ú©Û’ پاس ہے تو وہ انہیں دے جائے۔ ایسے میں وہ بوڑھا ڈاکیا مسکرا کر اور اشارے سے خط نہ ہونے Ú©Û’ بارے میں بتاتا ہوا گزر جاتا تھا اور اگر خط یا منی آرڈر موجود ہوتا تو فوراً رک کر ان Ú©Û’ Ø+والے کرتا تھا۔
یہ Ø+قیقت ہے کہ خط کسی دور میں ہماری شناخت کا Ø+والہ تھا ایک زمانہ تھا جب انسان ایک دوسرے Ú©ÛŒ خیریت معلوم کرنے Ú©Û’ لئے کبوتروں کا استعمال کرتے تھے اور ان Ú©Û’ ذریعے خط بھیج کر ایک دوسرے کا Ø+ال اØ+وال پوچھتے تھے مگر وقت Ú©Û’ ساتھ ساتھ جب ترقی ہوتی گئی تو ایک دوسرے Ú©Û’ ساتھ روابط Ú©Û’ طریقے بھی بدل گئے کسی پنڈ یا گائوں میں چین کور Ú©Û’ بغیر خستہ کاٹھی والی سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ڈاکیا بابو Ú©Ú†Û’ گھروں Ú©ÛŒ دہلیز پر کھڑا دستک دیکر خط دیا کرتا تھا آج وہ ڈاکیا نئی نسل کیلئے کسی عجوبے سے Ú©Ù… نہیں پارٹ ٹائم ڈاکیا اسکول ماسٹر (استاد صاØ+ب، استاد جی)ہوا کرتا تھا جو پرانی نسل Ú©Û’ ذہن میں آج بھی Ù…Ø+فوظ ہے۔ جب مارننگ اسمبلی ہوا کرتی تھی تو ماسٹر صاØ+ب اپنے شاگردوں میں ان Ú©Û’ پردیسی پیاروں Ú©Û’ خطوط تقسیم کرتے تھے Ú†Ú¾Ù¹ÛŒ Ú©Û’ وقت اسکول Ú©Û’ ہیڈ ماسٹر صاØ+ب Ú©Û’ دفتر سے طلبہ اپنے پردیسی رشتہ داروں Ú©Û’ بھیجے ہوئے نامے وصول کرتے اور ہاں! امن Ú©ÛŒ علامت وہ کبوتر جو پریمیوں Ú©Û’ خطوط اور رومان بھرے پیغامات نہایت انہماک اور ذمہ داری Ù…Ø+فوظ ہے سے لاتا Ù„Û’ جاتا۔

اب تو ڈاک، ڈاک خانہ، ڈاک بنگلہ، ڈاک چوکی، ڈاکیا بابو اور منی آرڈر جیسی اصطلاØ+ات سے موجودہ دور کا انسان نا آشنا ہوتا جارہا ہے۔ڈاک بنگلہ یا ڈاک Ú†ÙˆÚ©ÛŒ ایک مخصوص فاصلے پر ہوتی تھی جہاں Ù¾Ú†Ú¾Ù„ÛŒ Ú†ÙˆÚ©ÛŒ یا ڈاک بنگلہ سے Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ پر رواںیا Ù…Ø+Ùˆ سفر سوار ڈاکیا اپنی ڈاک اگلے بنگلہ تک پہنچاتا جہاں ایک تازہ دم Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Û’ ساتھ ایک ڈاکیا منتظر ہوتا اور وہ ڈاک کا تھیلہ لیتے ہی اگلے بنگلہ کیلئے تیار ہوجاتا کہا جاتا ہے کہ Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘Û’ Ú©Û’ پائوں میں مخصوص قسم Ú©Û’ گھنگرو ہوتے تھے جن Ú©ÛŒ آواز سن کر بنگلے والا ڈاکیا الرٹ ہوجاتا خاکی وردی میں ملبوس یہ ڈاکیا بابو جب کھیتوں، کھلیانوں اور آبادیوں Ú©Û’ پیچ پگڈنڈیوں پر تیز چلتا ہوا نمودار ہوتا تو لوگ اُسے دل سے خوش آمدید کہتے ’’اور بابو صاØ+ب! بیٹھیے بیٹھیے، چائے لسی وغیرہ پیجیئے ‘‘ کہتے۔ لیکن ڈاکیا بابو Ú©Û’ پاس اتنا وقت کہا Úº ہوتا وہ تو لوگوں Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ پردیسی پیاروں Ú©Û’ خطوط پہنچاتا۔ وقت کا انقلاب اور اس کا تقاضا دیکھیے۔

جہاں جدید دور Ú©Û’ ان روابط Ù†Û’ دور بیٹھے انسان Ú©Ùˆ ایک دوسرے Ú©Û’ قریب کیا تو دوسری جانب ساتھ رہنے والے لوگوں Ú©Ùˆ دور بھی کر دیا، جدت Ù†Û’ انسان سے ایک دوسرے Ú©ÛŒ Ù…Ø+بتیں بھی چھین Ù„ÛŒ ہیں۔برقی Ú©Û’ اس جدید دور میں پرانی روایات میں تبدیلیاں آنے سے جہاں بہت Ú©Ú†Ú¾ بدل چکا ہے، وہیں ڈاکیاکے ذریعے آنے والے خط اور ڈاک ڈبہ جیسی اصطلاØ+ات بھی ایک تصور بن کر رہ گئی ہیں ۔شہروں،قصبوں اور گائوں دیہات میں نصب ڈاک ڈبے برسوں سے تالا بند Ù¾Ú‘Û’ ہیں کیونکہ نہ کہیں ڈاک آتی ہے نہ خط اور نہ ہی صبØ+ Ú©Û’ وقت کوئی ڈاکیابابو سائیکل پر خاکی وردی میں ملبوس ہو کر ڈاک Ù„Û’ کر گھر گھر پہنچتا ہے بلکہ اس Ù†Û’ بھی وردی اُتار کر دیگر لوگوں Ú©ÛŒ طرØ+ اس جدید دور میں اپنا کام انجام دینا شروع کر دیا ہے۔ یہ تاثر بھی غلط ثابت ہو گیا ہے کہ انٹر نیٹ Ú©Û’ جدید دور میں ڈاک خانہ کا کام متاثر ہو گیا ہے،بلکہ آن لائن شاپنگ سے لیکر سپیڈ پوسٹ اور رجسٹرڈ لیٹرنگ Ú©Û’ کام میں اضافہ ہوا ہے۔
شہروں اور قصبوں میں ہزاروں ایسے ڈاک ڈبے ہیں جو زنگ آلودہ ہو Ú†Ú©Û’ ہیں، تاہم Ù…Ø+کمہ ڈاک Ú©Ùˆ یہ اُمید ہے کہ ان ڈبوں میں کوئی نہ کوئی ڈاک یا پھر خط وغیرہ ڈالنے ضرور آئے گا۔معلوم رہے کہ ڈاک نظام ایک تاریخی عالمی نظام ہے۔بھارت میں پوسٹ آفس یعنی ڈاکخانہ Ú©ÛŒ بنیاد 1854 میں لارڈ ڈلہوزی Ù†Û’ برِ صغیر Ú©Û’ ڈاک نظام Ú©Ùˆ بہتر کرنے کیلئے رکھی جس سے درست پتہ پر خطوط ØŒ منی آرڈر Ú©Û’ نام سے رقم پہنچانا، رقم جمع کرنا، لائف انشورنس Ú©ÛŒ سہولت مہیا کرنا اور مختلف طرØ+ Ú©Û’ فارم فروخت کرنا وغیرہ۔ Ø+کومت عوام Ú©Ùˆ قومی دیہی روزگارضمانتی قانون Ú©ÛŒ پنشن ڈاک ہی سے تقسیم کرتی Û” لیکن جدید دور میں انٹر نیٹ اور دیگر مواصلات Ù†Û’ جہاں کئی ایک پرانی روایات میں تبدیلیاں لائیں، وہیں ڈاکیا، ماسٹر بابو، ڈاک ڈبہ جیسی اصطلاØ+ات میں بھی Ú©Ù…ÛŒ ہوئی Û” خاکی وردی میں ملبوس سائیکل پر سوار ڈاکیے Ù†Û’ بھی وردی اُتار کر دیگرسول Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº میں اپنا کام انجام دینا شروع کر دیا تاکہ وہ بھی اس جدید دور میں دوسرے لوگوں Ú©Û’ ساتھ قدم سے قدم ملا کر Ú†Ù„ سکے۔
ایک عمر رسیدہ شہری چا چا لطیف کہتے ہیں، انٹر نیٹ Ù†Û’ رابطہ Ú©Ùˆ اس قدر آسان اور نزدیک بنا دیا کہ پرانی روایات ہم سے Ú†Ú¾Ù† گئیں،اب بچے سے لیکر بوڑھے تک سب موبائل اور انٹر نیٹ پر بھی کام نمٹا لیتے ہیں اور برسوں پہلے جس خبر Ú©Ùˆ ہم تک پہنچنے میں مہینے لگتے تھے،اب منٹوں اور سکنڈوں میں ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ خط Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ اور پھر پوسٹ کرنے کا رجØ+ان بھی ختم ہوگیا ۔وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل Ú©Ùˆ ڈاک خانہ اور ڈاکیاکے بارے میں سمجھانا بھی کافی مشکل بن گیا ہے کیونکہ انہیں اس کا علم ہی نہیں کہ ڈاک کیا تھی اور ڈاکیا اور ڈاک خانہ کیا ہے؟۔
مہاڑ Ú©Û’ ناصر علی اعوان کہتے ہیں ایک وہ دور تھا جب نوکریوں Ú©ÛŒ تلاش کرنے والے امیدواروں اور نوکری کرنے والوں Ú©Û’ گھر والوں Ú©Ùˆ صبØ+ Ú©Û’ وقت ڈاکیے Ú©ÛŒ آمد کا انتظار رہتا تھا۔ایک قدیم روایت یہ تھی کہ خوشی Ú©ÛŒ خبر لیکر آنے والے ڈاکیے Ú©Ùˆ انعام ملتا تھا اور جب کبھی ڈاکیاکوئی غم کا کوئی ٹیلی گرام لاتا تو بنا کلام کئے ØŒ دے جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ڈاکخانوں Ú©Û’ باہر بڑی تعداد میں لوگ کرسیاں لگا کر بیٹھ جاتے تھے جو لوگوں Ú©Û’ خط لکھتے تھے اور پارسل Ú©Ùˆ Ù…Ø+فوظ طریقے سے بند کرتے تھے،یا پھر منی آڑد Ú©Û’ فارم وغیرہ بھرتے تھے،لیکن اب Ú©Ú†Ú¾ ہی جگہوں پر اِکا دُکا لوگ ہی اس سے منسلک ہیں اور باقی لوگوں Ù†Û’ یہ کام Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر دوسرا کام دھندہ شروع کر دیا ہے۔منور خان چانڈیہ Ú©Û’ بقول انٹرنیٹ، ای میل اورموبائل فون آنے سے ان روایات پر گہرا اثر پڑاہے۔ ایک وہ دور تھا کہ فرصت نہیں ملتی تھی ڈبے کھولنے Ú©ÛŒ اور ڈاک پہنچانے Ú©ÛŒ لیکن اب خطوں کا کام Ú©Ù… ہوا ہے، البتہ سپیڈ پوسٹ اور رجسٹرڈ لیٹرنگ کا کام زیادہ بڑھ گیا ہے۔

اب آن لائن شاپنگ اسی Ú©Û’ ذریعے آتی ہے۔ صرف چٹھیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت Ù…Ø+کمہ ڈاک بھی نئے دور Ú©Û’ ساتھ Ú†Ù„ رہا ہے،جہاں ان میں انٹر نیٹ Ú©ÛŒ سہولت ہے، وہیں آن لائن سسٹم بھی یہاں معتارف کرایا گیا ہے بہت سی سکیمیں ایسی ہیں جن Ú©Û’ بارے میں لوگوں Ú©Ùˆ معلومات ہونی چاہئے۔ اس وقت تمام پوسٹ آفس آن لائن ہوئے ہیں او ر ان میں اے Ù¹ÛŒ ایم سہولیات بھی دستیاب ہیں۔جبکہ دیہی اور دورا فتادہ علاقوں میں قائم پوسٹ آفسوں Ú©Ùˆ آن لائن نہیں کیا گیا ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے سپیڈ پوسٹ کا کام سست ہے۔
ڈاک کا نظام ایک تاریخی اور عالمی نظام ہے اس نظام Ú©ÛŒ یہ خصوصیت ہے کہ اس کا تاریخی Ø+والہ آج سے سات ہزار سال پہلے فرعون مصر Ú©Û’ ابتدائی دور سے ملتا ہے۔عہد بابل میں تازہ دم اونٹوں اور Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº Ú©Û’ ذریعے سرکاری اور نجی ڈاک ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے کا کام انجام دیا جاتاتھا۔Ø+ضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ Ù†Û’ بھی ڈاک کامربوط نظام دنیا Ú©Ùˆ دیا۔برصغیر پاک Ùˆ ہند میں علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری Ù†Û’ ڈاک Ú©ÛŒ بہتری Ú©Û’ لیے کام کیا اورکئی اصلاØ+ات Ùˆ اقدامات کیے، مغل بادشاہ بھی ڈاک Ú©ÛŒ اہمیت سے بے خبر نہ تھے۔ڈاک Ù¹Ú©Ù¹ کا رواج جنگ آزادی سے چند سال پہلے شروع ہوا جب ایسٹ انڈیا کمپنی Ú©Û’ سر بارٹل فریری1851 میں سندھ Ú©Û’ چیف کمشنر تعینات ہوئے۔ انہوں Ù†Û’ برطانیہ میں رولینڈہل Ú©Û’ مروجہ نظام ڈاک Ú©Ùˆ سندھ میں نافذ کیا۔برصغیر پاک Ùˆ ہند میں پہلا ڈاک خانہ 1837 میں قیام پذیر ہوچکا تھا لیکن ایک طویل عرصے تک برطانوی ڈاک ٹکٹوں سے کام چلا یا جا تا رہا ہے اور بالآ خر1852 میںScinde Dawk نامی پہلا ڈاک Ù¹Ú©Ù¹ سر بارٹلے فریئر Ù†Û’ جاری کیا۔ یہ ڈاک Ù¹Ú©Ù¹ در اصل’’سندھ ڈاک‘‘ نامی لفظ کا برطانوی تلفظ تھا، انگریزوں Ù†Û’ جب سندھ فتØ+ کیا تواس وقت کا ڈاک کا قدیم نظام ان Ú©ÛŒ فوجی ضروریات Ú©Ùˆ پورا کرنے Ú©Û’ لیے ناکافی تھا جس Ú©Û’ سبب انہوں Ù†Û’ ڈاک کا جدید نظام وضع کیا۔تقسیم ِ ہند Ú©Û’ بعد15 اگست 1947 سے پاکستان پوسٹ Ù†Û’ لاہور سے اپنا کام شروع کیا، اسی سال پاکستان یونیورسل پوسٹل یونین میں شامل ہوا۔ 1948 میں پاکستان پوسٹ Ù†Û’ ملک Ú©Û’ پہلے جشن ِ آزادی Ú©Û’ موقع پر اپنے پہلے یادگاری Ù¹Ú©Ù¹ شائع کیے۔
ملک بھر میں زیادہ تر سرکاری Ù…Ø+Ú©Ù…Û’ پرائیویٹ کورئیرر سروسز Ú©Û’ ذریعے ڈاک Ú©ÛŒ ترسیل کرتی ہیں جس Ú©ÛŒ وجہ سے Ù…Ø+کمہ ڈاک Ú©Ùˆ مالی خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس سے قبل Ø+کومت Ù†Û’ بینظیر انکم سپورٹ اسکیم کا پورا پروجیکٹ پاکستان پوسٹ Ú©Û’ Ø+والے کیا ہوا ہے۔ملک Ú©Û’ طول Ùˆ عرض میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی Ú©Û’ ڈاک اور کتب Ú©ÛŒ ترسیل کا سارا کام بھی پاکستان پوسٹ Ú©Û’ ذمے ہی ہے۔
اقوام متØ+دہ Ú©ÛŒ خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین Ú©Û’ زیر اہتمام ہر سال 9 اکتوبر Ú©Û’ روزدنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن Ú©Û’ منائے جانے کا مقصد ملکوں Ú©Û’ درمیان ڈاک Ú©Û’ ترسیلی نظام Ú©Û’ بارے میں قانون سازی کرنا، اور دور جدید Ú©ÛŒ تبدیلیوں Ú©Û’ باوجود ڈاک Ú©ÛŒ اہمیت اور افادیت Ú©Ùˆ اجاگر کرنا اورنظام ڈاک Ú©ÛŒ ترقی Ú©Û’ لئے کاوشیں کرنا شامل ہے۔اور ہر وہ ملک جو اقوام متØ+دہ Ú©ÛŒ خصوصی تنظیم یونیورسل پوسٹل یونین (UPU) Ú©Û’ ممبران میں شامل ہے اس موقع پر خصوصی ڈاک Ù¹Ú©Ù¹ کا اجرا Ø¡ کرتا ہے۔ اقوام متØ+دہ Ú©Û’ اس خصوصی ادارے کا قیام 9 اکتوبر 1874میں سوئٹزر لینڈ Ú©Û’ دارالØ+کومت برن میں ہوا،اس دن Ú©Ùˆ منانے کا اعلان پہلی مرتبہ 1969 میں جاپان Ú©Û’ دارالØ+کومت ٹوکیو میں منعقدہ یونیورسل پوسٹل یونین Ú©ÛŒ کانگریس Ú©Û’ موقع پر کیا گیا۔
یونیورسل پوسٹل یونین Ú©ÛŒ سرگرمیوں میں پاکستان کا انتہائی مثبت کردار رہا ہے۔یو این او Ú©ÛŒ رپورٹ Ú©Û’ مطابق پاکستان میں 13 ہزار ڈاک خانے اب بھی کام کررہے ہیں۔اب ہمارے ڈاک Ú©Û’ نظام صرف خط Ùˆ رجسٹری تک Ù…Ø+دود نہیں بلکہ ایک ہمہ جہتی آرگنائزیشن ہے۔مثلاً عام خطوط، ارجنٹ میل، رجسٹرڈ Ùˆ بیمہ شدہ ڈاک، پارسل سروس، عام منی آرڈر، ارجنٹ اور فیکس منی آرڈر، سیونگ بینک وانشورنس سروسز Ø+تیٰ کہ ڈاک خانے Ú©Û’ کاوئنٹر سے عوام Ú©Ùˆ موٹر ÙˆÛ’ گائیڈ اور زرعی پاس بک بھی مہیاکی جاتی ہیں۔ نئی Ø+کومت Ù†Û’ ملک بھر Ú©Û’ تمام سرکاری Ù…Ø+کموں Ú©Ùˆ ہدایت جاری Ú©ÛŒ ہے کہ وہ آئندہ اپنے Ù…Ø+کمہ Ú©ÛŒ سرکاری ڈاک Ú©ÛŒ ترسیل پاکستان پوسٹ Ú©Û’ ذریعے کریں۔
یہ تلخ Ø+قیقت ہے کہ موجودہ بے چہرہ Ùˆ بے ہنگم ترقی Ú©ÛŒ تیز رفتاری Ú©Û’ باعث خط Ú©ÛŒ تہذیبی Ùˆ ثقافتی روایت تاریخ Ú©Û’ Ú©ÙˆÚ‘Û’ دان میں دفن ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ لیٹر بکس عہد رفتہ Ú©ÛŒ بھول بھلیوں میں Ú¯Ù…ØŒ ڈاک خانے ویران، جدیدیت Ú©ÛŒ ماری اور سوشل میڈیا Ú©Ùˆ پیاری نئی نسل خطوط نویسی سے وابستہ سرشاریوں، بے قراریوں اور وارفتگیوں سے ناآشنا اور دو سو سالہ بوڑھے Ù…Ø+کمہ ڈاک Ù†Û’ نومولود انٹرنیٹ Ú©Û’ سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ ڈاک Ú©ÛŒ قیمتوں میں ہوش ربا’’تبدیلی‘ ‘ کرتے ہوئے مکتوب نگاری Ú©Û’ بچے Ú©Ú¾Ú†Û’ رومان میں بھی کھنڈت ڈال دی ہے۔اس پیامبر Ú©ÛŒ اہمیت صرف پیغامات Ú©ÛŒ ترسیل تک Ù…Ø+دود نہیں تھی بلکہ یہ ہمارے ادب اور ثقافت کا اہم کردار تھا۔ کہتے ہیں ایک دور میں خط لکھنا خواندگی کا معیار تصوّر ہوتا تھا خواندگی Ú©ÛŒ شرØ+ انتہائی Ú©Ù… تھی پوری پوری آبادی میں کوئی ایک خط Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والا ہوتا تھا، ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک خاتون کسی Ú©Û’ پاس خط لکھوانے گئیں، تو اس Ù†Û’ کہا میری ٹانگ میں درد ہے میں نہیں Ù„Ú©Ú¾ سکتا،خاتون Ù†Û’ کہا خط تو ہاتھ سے لکھنا ہے پائوں سے کیا تعلق؟تو اس Ù†Û’ کہا کہ جس Ú©Ùˆ خط لکھوارہی ہیں اس کا جواب Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ لیے بھی مجھے جانا Ù¾Ú‘Û’ گا‘‘۔آپ Ú©Ùˆ یہ جان کر Ø+یرت ہوگی کہ سن70 اور80 Ú©ÛŒ دہائیوں میں ایک ارود سروس Ú©Û’ لندن آفس Ú©Ùˆ سالانہ ساٹھ سے پینسٹھ ہزار خطوط موصول ہوتے تھے جن Ú©Ùˆ چھانٹنے اور مرتب کرنے Ú©Û’ لیے پانچ افراد کا کُل وقتی عملہ تعینات تھا اور بُش ہائو س سے Ú©Ú†Ú¾ فاصلے پر ایک الگ دفتر اسی کام Ú©Û’ لیے مخصوص تھا۔
ترقی Ú©Û’ ساتھ ساتھ فاصلے سمٹتے گئے، تبدیلی آتی Ú†Ù„ÛŒ گئی،خط Ú©ÛŒ جگہ پہلے تار Ù†Û’ Ù„ÛŒ اور پھر ٹیلی گرام،فیکس کا دور آیا اور موبائل Ù†Û’ آکر تو بہت Ú©Ú†Ú¾ بدل دیا ڈاکیا کا کردار Ù…Ø+دود ہوگیااور اب سوشل میڈیا اورانٹرینٹ Ù†Û’ خط یا Ú†Ú¾Ù¹ÛŒ Ú©Û’ نظام Ú©Ùˆ کمزور اور ختم نہیں کردیا ہے بلکہ اس Ù†Û’ تو رشتوں Ú©Ùˆ کمزور اور متاثر کیا ہے۔اب شاذو نادر ہی کوئی کسی Ú©Ùˆ خط لکھتا ہوگا کیونکہ اب دنوں میں پہنچنے والا پیغام سیکنڈوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک اور شہر پہنچ جاتا ہے لیکن شاید پیغام جاتا ہے۔ لیکن اب جدید پیغام رسانی Ú©Û’ نظام میں وہ جذبہ،درد اور خلوص نہیں پہنچ پاتا ہے،جو خط Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ عمل سے اس Ú©Ùˆ ڈاک خانہ تک پہنچانے میں پیدا ہوتا تھا Û”