آنکھیں ترس گئی ہیں

اس گھر میں یا اس گھر میں
تو کہیں نہیں ہے
دروازے بجتے ہیں
خالی کمرے
تیری باتوں کی مہکار سے بھر جاتے ہیں
دیواروں میں
تیری سانسیں سوئی ہیں
میں جاگ رہا ہوں
کانوں میں
کوئی گونج سی چکراتی پھرتی ہے
بھولے بسرے گیتوں کی
چاندنی رات میں کھلتے ہوئے
پھولوں کی دمک ہے، یہیں کہیں
تیرے خواب
مری بے سایہ زندگی پر
بادل کی صورت جھکے ہوئے ہیں
یاد کے دشت میں
آنکھیں کانٹے چنتی ہیں
میرے ہاتھ
ترے ہاتھوں کی ٹھنڈک میں
ڈوبے رہتے ہیں
آخر۔۔۔ تیری مٹی سے مل جانے تک
کتنے پل
کتنی صدیاں ہیں
اس سرحد سے
اس سرحد تک
کتنی مسافت اور پڑی ہے
ان رستوں میں
کتنی بارشیں برس گئی ہیں
آنکھیں مری
تیری راتوں کو ترس گئی ہیں
ابرار احمد