تری دنیا کے نقشے میں
تری دنیا میں جنگل ہیں
ہرے باغات ہیں
اور دور تک پھیلے بیاباں ہیں
کہیں پر بستیاں ہیں
روشنی کے منطقے ہیں
پہاڑوں پر اترتے بادلوں میں
رقص کرتا ہے سمندر چار سو
اسی انبوہ کا حصہ نہیں ہوں میں
کہاں ہوں میں
میں تیرے لمس سے اک آگ بن کر پھیلنا
تسخیر کی صورت بپھرنا چاہتا تھا
اور اترا ہوں
کسی بے مہر سناٹے کے میداں میں
ہزیمت کی دہکتی ریت پر
بکھرا پڑا ہوں شام کی صورت
میں جینا چاہتا تھا تیری دنیا میں
ترے ہونٹوں پہ کھلتے نام کی صورت
کہیں دشنام کی صورت
کہیں آرام کی صورت
میں آنسو تھا
ترے چہرے پہ آ کر پھول دھرتا تھا
ترے دکھ پر
گرا کرتا تھا قدموں میں
اے چشم تر کہاں ہوں میں
اندھیرے سے بھری آنکھوں میں
چلتی ہے ہوا ہر سو
اور اڑتے جا رہے ہیں راستے اس میں
زمانوں کے کناروں سے
ابد کے سرد خانوں تک
ہوا چلتی ہے ہر سو
اور اس کی ہم رہی میں
دو قدم چلتا نہیں ہوں میں
ہجوم روز و شب میں
کس جگہ سہما ہوا ہوں میں
کہاں ہوں میں
تری دنیا کے نقشے میں
کہاں ہوں میں
ابرار احمد