میرے پاس کیا کچھ نہیں
میرے پاس راتوں کی تاریکی میں
کھلنے والے پھول ہیں
اور بے خوابی
دنوں کی مرجھائی ہوئی روشنی ہے
اور بینائی
میرے پاس لوٹ جانے کو ایک ماضی ہے
اور یاد۔۔۔
میرے پاس مصروفیت کی تمام تر رنگا رنگی ہے
اور بے معنویت
اور ان سب سے پرے کھلنے والی آنکھ
میں آسماں کو اوڑھ کر چلتا
اور زمین کو بچھونا کرتا ہوں
جہاں میں ہوں
وہاں ابدیت اپنی گرہیں کھولتی ہے
جنگل جھومتے ہیں
بادل برستے ہیں
مور ناچتے ہیں
میرے سینے میں ایک سمندر نے پناہ لے رکھی ہے
میں اپنی آگ میں جلتا
اپنی بارشوں میں نہاتا ہوں
میری آواز میں
بہت سی آوازوں نے گھر کر رکھا ہے
اور میرا لباس
بہت سی دھجیوں کو جوڑ کر تیار کیا گیا ہے
میری آنکھوں میں
ایک گرتے ہوئے شہر کا سارا ملبہ ہے
اور ایک مستقل انتظار
اور آنسو
اور ان آنسوؤں سے پھول کھلتے ہیں
تالاب بنتے ہیں
جن میں پرندے نہاتے ہیں
ہنستے اور خواب دیکھتے ہیں
میرے پاس
دنیا کو سنانے کے لیے کچھ گیت ہیں
اور بتانے کے لیے کچھ باتیں
میں رد کیے جانے کی لذت سے آشنا ہوں
اور پذیرائی کی دل نشیں مسکراہٹ سے
بھرا رہتا ہوں
میرے پاس
ایک عاشق کی وارفتگی
در گذر اور بے نیازی ہے
تمہاری اس دنیا میں
میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے
وقت اور تم پر اختیار کے سوا؟
ابرار احمد