قطاروں میں لگے افراد کا کرب کون جانے ؟ ... ایم ایم طفیل
line.jpg
میٹر ٹھیک کرانے والی قطار ’’خطرناک‘‘ ہو تی ہے، ڈی ٹیکشن بل بھی پڑ سکتا ہے اس کیلئے ایک اور لائن بنتی ہے جسے رشوت کی لائن کہا جاتا ہے
اب میں راشن کی قطاروں میں نظرآتا ہوں۔۔۔ اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزاپاتاہوں
عام آدمی کے لیے قطاروں میں کھڑاہونااورلائن میں لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔کبھی کوئی ضرورت‘ کبھی کوئی آس‘ کبھی کوئی مجبوری اسے قطار کاحصہ بنادیتی ہے۔سرکاری اسپتالوں میں‘راشن کی دکانوں میں روزگار کے لیے، قرض کے لیے‘پنشن کے لیے قطاربندی‘ کبھی امیدبرآنا‘کبھی مایوس لوٹ جانا۔ حتیٰ کہ یہ قطاریں کسی کوپاگل توکسی کو موت سے ہم آغوش بھی کردیتی ہیں۔سابقہ دور حکومت میں ایک ادھیڑ عمر شخص جو آٹے کے حصول کیلئے لائن میں گھنٹوں کھڑا رہا جب قوت برداشت جواب دے گئی تو موت نے اسے ہمیشہ کیلئے اپنی آغوش میں لے لیا ۔ صحافت سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے نادرادفاتر کے باہر قطاروں میں لگنے والے غریبوں‘ مزدوروں اورکسانوں کے بشمول خواتین کو درپیش مشکلات کاجائزہ لیا‘ ان سے بات کی اور ان کی روزمرہ کی دشواریوں کوپیش کیا۔ کاروباریوں اور چھوٹی صنعتوں کے مالکان کے مسائل پربھی روشنی ڈالی۔کورونا سے تباہ حال اپنی معاشی حالت کے سبب کوئی مزدور اپنی بیوی کا بروقت علاج کرانے سے قاصر ہے توکوئی کینسرکا مریض لائن میں کھڑا ہونے پر مجبور ہے‘ کسی کی شیرخواربیماربچی کودوا کی حاجت ہے تو کسی کا روزگار خطرے میں ہے۔اس ملک میں ایسے لاکھوں افراد ہیں‘ جن پر زندگی ہرروز ایک قیامت برپاکرتی ہے۔جنہیں ہردن اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔سینکڑوں مقروض کسان‘خشک سالی‘ خاطر خواہ فصل کے نہ ہونے کے سبب خودکشی کرلیتے ہیں۔
دیہات،قصبات اور شہروں کا عالم یکساں ہے،لوگ بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں۔بجلی اور گیس کا بل ٹھیک کرانے یا لگوانے، میٹر لگوانے، ہر کام کے لئے الگ اور لمبی سی قطار منتظر ہو گی۔ہر سال لاکھوں نہیں تو ہزاروں بل غلط آتے ہیں ،بجلی اور گیس کے میٹر ہزاروں کی تعداد میں وقت سے کہیں پہلے جل جاتے ہیں ، میٹر جس نے 14سال چلنا ہے کبھی کبھی تو دو سال میں ہی کام چھوڑ دیتا ہے، یہ مالی بوجھ تو اٹھانا ہی پڑتا ہے لیکن سزا بھی ملتی ہے ،سفارش نہ ہو تو میٹر لگنے میں کئی کئی سال لگتے ہیں ۔میں ایک ایسے شخص کو بھی جانتا ہوں کہ جس کے گھر کا میٹر جل گیا تو بجلی کی کمپنی نے تمام ’’خرچہ‘‘ اور پانی (خرچہ پانی )ملا کر40ہزار روپے لئے ۔ اگر کسی نے نہ دینا چاہے تو اسے ایک لمبی سی قطار یعنی انتظار کا سامنا کرنا پڑے گا، جائز طریقے سے کام کرنے والوں کی قطا بندی الگ ہوتی ہے بلکہ انہیں ایک ایسی انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے جہاں اس کے خلاف یہ کارروائی بھی ہو سکتی ہے کہ ’’کمپنی کا میٹر تو اے ون تھا یہ جل کیسے گیا؟‘‘۔ اگر ایک دو میٹر وقت سے پہلے خراب ہوں تو صارف ذمہ دار ہو سکتا ہے لیکن اگر روزانہ ہی متعدد میٹر جواب دے رہے ہوں تو حکومت کو بھی سوچنا چاییے۔اور کمپنی کے ذمہ داروں کو گرفتار کر کے میٹروں کی کوالٹی چیک کرانا چاہئے۔
میٹر ٹھیک کرانے کے لئے بنائی جانے والی قطار ’’خطرناک‘‘ ہوتی ہے، ان پر ڈی ٹیکشن بل بھی پڑ سکتا ہے اس کے لئے ایک اور لائن بنتی ہے جسے رشوت کی لائن کہا جاتا ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر سال صرف میٹروں کی جلدی خرابی سے بھی عام طورپر کرووڑوں روپے کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ نوکری کرنی ہے، کام چاہیے،اب تو کئی ادارے اشتہار دینے کی بجائے پہلے آئو پہلے پائو کی بنیاد پر ملازمتیں دے رہے ہیں، جس کے پاس ملازمت خالی ہونے کا علم نہیں وہ روزگار کے لئے بھٹکتا رہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت ماضی جیسا ایک ادار ہ بنا دے ،سبھی بے روز گار وہاں رجسٹرڈ ہوں اور پھر ضرورت کے مطابق بھی نوکری مہیا کی جائے جیسا کہ اگر کسی گھرانے میں ایک بھی ملازم نہ ہو تو اسے اس ضرورت مند پر ترجیح دی جائے جس گھر میں دو کمانے والے موجود ہوں ۔دہاڑی دارمزدوروں کو بھی سڑکوں کے کنارے قطار در قطار کھڑا رہنا پڑتاہے،دہاڑی دار مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
ان دنوں مفلسی‘غریبی‘تنگ دستی‘ مجبوری‘لاچاری‘ بیماری‘ ضعیفی‘ ناخواندگی اورکم مائیگی کی طویل قطاریں سردیوں سے بوجھل دن اوراداس شاموں میں حزن و ملال گھول رہی ہیں۔ہائوسنگ کالونی میں کوٹ ادو روڈ سے شرقی جانب احساس پروگرام کے آفس کے باہر‘ اپنی باری کی منتظر خواتین اور ان کی ’’ضرورتوں‘‘کونمایاں کرتی ان کے چہروں کی بے چینی و بے کلی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ایک خاتون نے رندھی ہوئے مغموم لہجے میں بتایا کہ ’’میری چھوٹی بچی کو دواکی ضرورت ہے لیکن میرا میٹر جل گیا اور اب اس کے علاج کے پیسے بجلی کمپنی کو دینا پڑ گئے ہیں‘‘۔
ایک دوسری خاتون:نے بتایا ’’مجھے شوگرہے اورمیں صبح آٹھ بجے سے اب تک بھوکی پیاسی بل ٹھیک کرانے یہاں کھڑی ہوں‘ شاید آج بھی میری باری آنے سے پہلے ٹائم ختم ہوجائے۔‘‘کئی خواتین اپنے شیرخواربلکہ نوزائیدہ بچوں کو گھر میں چھوڑکریہاں آئی تھیں۔
ادارہ جاتی کمزوری کے باعث عمربھرکی کمائی لٹ جائے توکیسالگتاہے؟لوگ اپنے بچوں کی پڑھائی‘ بیٹیوں کی شادی اور کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تنکاتنکاجوڑ رکھتے ہیں، مٹی کے غلہ میں‘کسی اناج کے ڈبے میں یا کپڑوں کی تہوں میں۔شوہر یا بیٹے کی محدود آمدنی سے کچھ روپے پس انداز کر کے کسی اچانک افتاد پرخواتین اپنے خاندان کے افراد کے لیے ایک بہت بڑا سہاراثابت ہوتی ہیں۔لیکن اگر یہ بھی کسی سرکاری ادارے کی نااہلی یاغفلت یا کام چوری کی وجہ سے خرچ ہو جائے تو کون ذمہ دار ہے؟
ایک خاتون کئی روز کی تگ و دو کے بعد سرکاری امداد لیکر چلی تو ہجوم میں انہیں خبرہی نہ ہوئی کہ کب کسی نے ان کا پرس کاٹ کررقم ہڑپ لی۔جب وہ گھر پہنچیں اور دیکھاکہ ان کے پرس سے روپے غائب ہیں، ان کاصدمے سے براحال ہوا‘ وہ بے تحاشا رونے لگیں۔ایک غریب خاندان کے لیے یہ خسارہ معمولی تو نہیں۔ایک معمر خاتون بتارہی تھیں کہ انہوں نے برسوں دہی بیچ کر رقم جمع کی تھی کہ برے وقت میں کام آئے گی‘ لیکن وہ جمع پونجی ایک ہی میٹر کی خرابی میں نکل گئی۔
ایک بیوہ خاتون ہرروزمحلہ میں شیرمال فروخت کرنے آیاکرتی تھیں‘ان کا کوئی کفیل نہیں تھا‘ انہوں نے اپنی محنت کی کمائی سے ایک ایک روپیہ بچاکر حج کا فریضہ انجام دینا تھا، ایک خاتون نے بطور گھریلو ملازمہ کام کرکے جہیز جمع کیا،لیکن ان دونوں کے ساتھ فراڈ ہو گیا،اب وہ پولیس پولیس کھیل رہی ہیں۔پولیس کے پاس بھی لمبی سی’’ قطار‘‘ ہے۔ ملک بھر میں کہ لاکھوں افراد اس قانون کی عمل داری کے لئے اس ادارے کی راہداریوں میں دھکے کھا رہے ہیں لیکن باری آئے گی، نمبر لگے تو قانون ان کے بھی کام آئے گا۔
دیہاتوں میں رہائش پذیر زراعت سے جڑے افراد کے لیے ان کے جانور بھی ارکانِ خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ ان کے لیے چارے کا انتظام بھی آسان نہیں رہتا ۔ جنوبی پنجاب میں ایک زمین کا چھوٹا ساٹکڑا‘ان کے جینے کی آس ہوتا ہے۔ بیج کے بونے سے لے کر فصل کے اگنے تک کاانتہائی پرمشقت اور صبرآزمامرحلہ‘وہ عمدہ فصل کی امید میں طے کرتے ہیں۔ لہلہاتی فصلیں اوران پر نمودار ہونے والے اناج کے خوشے جہاں انہیں لامتناہی مسرت اور اطمینان سے ہم کنار کرتے ہیں ‘ وہیں بارش کی کمی یا خشک سالی کے سبب غیر تسلی بخش فصل سے ان کے چہرے مرجھاجاتے ہیں۔اس بار انہیں کورونا کی وباء نے پژمردہ کردیاہے۔روزگار کی فراوانی نہیں ۔کسی شاعرنے ایک کسان کا کرب یوں بیان کیا ہے،
اب میں راشن کی قطاروں میں نظرآتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزاپاتاہوں
وہ لوگ کیا کریں جن کی بینک تک رسائی نہیں جو اے ٹی ایم اورپے ٹی ایم سے واقفیت اور اس کی سہولت نہیں رکھتے۔ بہرحال صاحب اقتدار کے اس کھیل میں کمزور طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ کئی گھنٹوں مشکل حالات کو سہتے ہیں اور چند روپے لے کر گھر کی جانب رخ کرتے ہیں تاکہ زندگی کو بحال رکھا جاسکے اور ضروریات زندگی کچھ حد تک پایہ تکمیل کو پہنچیں۔
بازار سونے پڑے ہیں،تجارت ٹھپ ہے،مزدور پریشان ہیں،لوگ بھوک پیاس کی شدت جھیلنے پر مجبور ہیں۔سبزی فروخت کرکے، چائے پان بیچ کر اپنی زندگی کے پہیے کو متحرک کرنے والے افراد سکتے میں ہیں،ان کی زندگی کی رفتار مدھم پڑگئی ہے،مسائل اژدہوں کی مانند پھنکارنے لگے ہیں،دن رات سوچ و فکر میں مبتلا،کاروان حیات کی فکر میں ڈوبے ہوئے،صبح کی پو پھوٹتے ہی سائیکل کے ساتھ زور آزمائی کرتے ہوئے،ریلوے لائن کے کنارے راج گیری کیلئے اپنے اوزار اُٹھائے سردی کی کہر آلود صبح کو لائن میں لگے ہوتے ہیں غریب بے بس لاچار افراد، اپنی محنت ومشقت کی کمائی کو حاصل کرنے کے لئے ڈاک خانے کے سامنے لگی قطار میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر رقم کے حصول میں پسینے چھوٹ جاتے ہیں،بسا اوقات بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دوچار ہاتھ ہی جب لب بام رہ گیا۔ نمبر آتے آتے نقدی ختم ہونے کا اعلان کسی موت کی خبر سے کم تکلیف دہ محسوس نہیں ہوتا،پھر مایوسی کے ساتھ خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ آتے ہیں اور جو اپنی بھوکی اولاد کے چہروں کو دیکھنے کی تاب نہیں لا پاتے وہ نبض حیات ہی کاٹ لیتے ہیں۔
کورونا سے پیدا شدہ بے روز گاری کے بعد 50 کے قریب افراد خود موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ بوڑھا باپ بیٹی کی شادی کے لئے روپے مہیا نہ کر سکا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یا جوان دوشیزہ نے کئی دنوں تک پیسے نہ ملنے کے سبب خودکشی کرلی،اس طرح کے واقعات کورونا سے تباہ ہونے والی معیشت سے مسلسل رونما ہوئے ہیں،اور ان افراد کی بے بسی کامذاق اڑایا گیا،زخموں پر نمک چھڑکا گیاکہ غریب چین کی نیند سور رہا ہے اور امیر نیند کی گولیاں کھانے پر مجبور ہے۔اگر یہ دعویٰ حقیقت کے قریب ہے تو چند ایسے مالداروں کے نام پیش کردیجئے جو نیند کی گولیاں کھارہے ہیں؟یا کچھ ایسے غریب لائیے جو سکون سے سوئے ہوں؟مرنے والوں میں کتنے ایسے ہیں جو بلیک منی چھپانے کے خوف اور فکر میں دنیا سے رخصت ہوئے؟ان سوالات کے جوابات آپ کے دعویٰ کاپول کھول کر رکھ دیں گے۔ حقائق کیا ہیں؟عام پاکستانی صبح سے شام تک اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے،بھگتتا ہے،تھک ہار کر بستر کا رخ کرتا ہے اور سو جاتا ہے،جب صبح بیانات پڑھتا ہے،تو عجیب و غریب صورت حال سے واقف ہوتا ہے،جہاں کچھ سیاست دان مسکرا کر یہ بیان کررہے ہیں کہ ’’امدادی پروگراموں کی رقم ملنے پر خوشی کا ماحول ہے، ملک ترقی کی راہ پر آگیا،ٹیکس چوروں کو دھر لیا جائے گا،غریبی دور ہوجائے گی، وزیر اعظم نے بہت موزوں فیصلہ لیا ہے‘‘وغیرہ وغیرہ ۔
موجودہ حکومت کو تین برس ہونے کو ہیں،بتائیے کتنے ٹیکس چوروں کو گرفتار کیا گیا؟کتنی بلیک منی حاصل کرنے میں نیب کامیاب ہوا؟بلیک منی ہمارے ہاں زیادہ ہے،یا سوئس بینک اور پاناما میں؟ اس سلسلہ میں ہماری تحقیقات کیا ہیں؟وہ بیان کیجئے،کتنے امیروں کو آپ نے قطار میں لگا ہوا پایا؟ اس کی فہرست عوام کے سامنے پیش کیجئے؟اس سلسلہ میں کوئی سیاست دان گفتگو کرتا ہوا نظر نہیں آتا،عوام کے مسائل ان کی مشکلات و پریشانی بھی کسی کو نظر نہیں آتی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کری گزارشات پر بھی غور کیا جائے گا۔