اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حال دل یار کو لکھوں کیونکر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا