قومی ہیرو۔۔محمد علی سدپارہ ۔۔۔۔ طیب رضا عابدی
Muhammad Ali Sadpara.jpg
یہ 2015سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی صبح تھی جب سکردو کے صحافتی دورہ کے دوران ہمیں خبر ملی کہ قومی ہیرو حسن سدپارہ ملنے آرہے ہیں ۔لانگ جیکٹ پہنے قومی ہیرو حسن سدپارہ چند لمحوں کے بعد ہمارے سامنے تھے، وہ مائونٹ ایورسٹ سر کرچکے تھے ۔ ان کے ہمراہ محمد علی سدپارہ بھی تھے ۔کوہ پیمائی کے دوران اپنے پھٹے ہوئے ہاتھ دکھاتے ہوئے انہوں نے حکومتی رویہ کی شکایت کی کہ بس جب آپ چوٹی سر کرتے ہیں اس وقت تو چند دن واہ واہ ہوتی ہے ، تعریفوں کے ڈونگرے بجائے جاتے ہیں اور اس کے بعد سب بھول جاتے ہیں کہ کون قومی ہیرو۔۔کس حال میں کون جیتا ہے کسی کو خبر نہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ وہ کوہ پیمائی کا خرچہ خود برداشت کرتے ہیں ۔ انتہائی عجزو انکساری کا پیکر حسن سدپارہ نمناک آنکھوں کے ساتھ اس امید پر ہم سے رخصت ہوئے کہ ہم میڈیا میں ان کی آواز اٹھائیں گے ۔ لیکن پھر ہم بھی سکردو سے واپسی پر اپنے اپنے کاموں میں ایسے مصروف ہوئے کہ سدپارہ کی کسی کو فکر ہی نہ رہی۔مرحوم حسن سدپارہ بھی اسی گاؤں کے تھے جس کے رہائشی محمد علی سدپارہ تھے۔اسکردو چوک پر حسن سدپارہ کا مجسمہ بھی نصب ہے۔
کافی عرصے بعد سدپارہ کے ایک اور ہیرو کا نام اس وقت شہہ سرخیوں میں دوبارہ آنے لگا جب ’’کے ٹو‘‘(اصل نام چھغوری) کی انتہائی بلندی پر منفی 62درجہ حرارت پر انہوں نے یہ چوٹی سر کی۔ محمد علی سدپارہ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا کہ کوہ پیما انتہائی بلندی پر صرف 8منٹ ٹھہرے، مواصلات سسٹم سردی کی وجہ سے منجمد ہوگیا تھا۔ کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹیوں میں شامل کی جاتی ہے، موسم سرما کے دوران کے ٹو (چھغوری) سر کرنے والے کوہ پیماوَں کی مجموعی تعداد 13 ہوگئی لیکن واپسی کے سفر کے دوران وہ مشکلات کا شکار ہوگئے ۔اس مشن میں ان کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی شامل تھے تاہم وہ بوٹل نک کے مقام سے واپس کیمپ تھری پہنچ گئے ۔ساجد سدپارہ کو آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث واپس آنا پڑا تھا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے کے ٹو کی چوٹی پر شام پانچ بجے پاکستانی پرچم لہرایا ، ان کے ساتھ غیر ملکی کوہ پیما جان اسنوری بھی تھے۔ حادثہ کیمپ تھری سے واپسی پر رسی ٹوٹنے سے پیش آیا، ہلاک اور زخمی ہونے والے کوہ پیمائوں کی تلاش میں آرمی ہیلی کاپٹر سکردو پہنچے۔آرمی ریسکیو آپریشن میں مقامی کوہ پیمائوں کے علاوہ دو غیر ملکی کوہ پیمائوں نے بھی شرکت کی۔ محمد علی سدپارہ نے مہم کے دوران ہی 2فروری کو اپنی45 ویں سالگرہ بھی بیس کیمپ میں منائی تھی۔ ان کے بیٹے کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخری بار اپنے والد کو 8200 میٹر کی بلندی پر بوٹل نیک پر چڑھتے دیکھا تھا۔ کوہ پیما علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما سردیوں میں بغیر آکسیجن کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ محمد علی سد پارہ نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھاکہ انھوں نے8 ہزار میٹر کی 8 چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران8 ہزار میٹر کی4 چوٹیاں سر کیں۔ان کے ساتھ نانگا پربت کو سر کرنے والے سپین اور اٹلی کے کوہ پیمائوں سیمون مورو اور ایلیکس کا کہنا تھا کہ وہ یہ مہم محمد علی سدپارہ کی وجہ سے سر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، اگر وہ نہ ہوتے تو یہ معرکہ سر نہ ہوتا۔
کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی مہم کے دوران وہ اور آئس لینڈ کے جان سنوری ، چلی کے جان پابلو انتہائی بلندی پر پہنچنے کے بعد واپس نہیں پہنچ سکے۔ الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت کے ٹو پر انتہائی تیز ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تھیں۔علی سدپارہ سمیت دیگر کوہ پیماؤں کا گزشتہ جمعہ سے کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔
واضح رہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران چند روز پہلے ایک حادثے کے نتیجے میں نیپالی کوہ پیما برفانی شگاف میں گر کر لاپتہ ہوگیا تھاجب کہ بلغارین کوہ پیما ہلاک ہوا۔
سکردو کے باسی محمد علی سدپارہ کا گائوں اور کوہ پیمائی لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں ہر محلے میں پورٹر اور کوہ پیما موجود ہیں۔ اس وقت 8 ہزار میٹر سے بلند چوٹیاں سَر کرنے والے 20 کوہ پیما ئوں کا تعلق سدپارہ گاؤں سے ہے۔ جب بچے کھانا نہیں کھاتے تووہاں کی مائیں اپنے بچوں کو کہتی ہیں’’کھانا نہیں کھاؤ گے تو ’’کے ٹو‘‘ کیسے سَر کرو گے؟‘‘۔سدپارہ گاؤں کی لڑکیاں بھی کوہ پیمائی میں دلچسپی لیتی ہیںلیکن ان کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہے ۔اسکردو سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سدپارہ جھیل ہے، اسی جھیل سے اس گاؤں کی آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ گاؤں کی آبادی تقریباً 4 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ دورہ سکردو کے دوران ہمیں حیران کن علم ہوا کہ سکردو پرامن ترین لوگوں کا شہر ہے جس میں کرائم ریٹ صفر کے برابر ہے، اس طرح یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جہاں جرائم کی صورت حال انتہائی کم ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی سطح کے کوہ پیمائوں کی مدد کرے اور وہاں کے علاقوں میں لوگوں کی پہنچ آسان بنائے تاکہ سیاحت میں مزید اضافہ ہو۔