Results 1 to 2 of 2

Thread: اسلام میں Ø+رام Ùˆ Ø+لال کا تصور .... Û” ڈاکٹر Ù…Ø+مد قائم الاعظمی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam اسلام میں Ø+رام Ùˆ Ø+لال کا تصور .... Û” ڈاکٹر Ù…Ø+مد قائم الاعظمی


    اسلام میں Ø+رام Ùˆ Ø+لال کا تصور .... Û” ڈاکٹر Ù…Ø+مد قائم الاعظمی

    islam mein Hilal aur haraam.jpg
    خالق کائنات Ù†Û’ دین Ùˆ دنیا Ú©ÛŒ تقسم Ú©Ú†Ú¾ اس طرØ+ فرمائی ہے کہ آخرت Ú©Ùˆ اجر Ú©ÛŒ منزل قرار دیاہے اور دنیا تگ Ùˆ دو، کد Ùˆ کاوش Ú©Û’ لئے مخصوص فرمائی ہے۔ یہی سعی Ùˆ کوشش رزق Ú©Û’ Ø+صول کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ زاد راہ فراہم کرنے کاوسیلہ بھی ہے۔

    اسلام Ú©ÛŒ رو سے کوئی فرد یا طبقہ دیگر افراد Ùˆ طبقات Ú©Ùˆ مالی Ùˆ مادی نقصان پہنچا کر نفع Ø+اصل نہیں کر سکتا
    کبھی کبھی انسان ان صفات سے کام نہیں لیتا جو اسے Ø+یوانوں اور درندوں سے ممتاز کرتی ہیں

    انسان Ú©Û’ لئے ساری دنیا ایک جولانگاہ ہے۔جہاں سے وہ فہم وا دراک ØŒ ہمت Ùˆ قوت Ú©Û’ مطابق زیست کا ساز Ùˆ سامان Ø+اصل کر سکتا ہے۔ بعض مواقعوں پر ایک طاقتور انسان چھین کر اور کمزور چرا کر بھی کھا سکتا ہے۔مگر چھینا جھپٹی Ú©ÛŒ یہ عادت انسانوں Ú©ÛŒ نہیں درندوں Ú©ÛŒ صفت ہے جو اپنا اپنا رزق کمزور جانوروں سے چھین کر یا انہیں چیر پھاڑ کر Ø+اصل کرتے ہیں۔
    انسان Ú©Û’ سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجا ہے تاکہ وہ رزق Ú©Û’ Ø+صول میں اپنی فہم Ùˆ ادراک کا صØ+ÛŒØ+ اور جائز استعمال کرے۔اور اپنی قوت Ùˆ طاقت کا غلط استعمال نہ کرے۔ اور سفلی جذبات Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ Ùˆ انصاف Ú©Û’ تقاضوں پر غالب نہ آنے دے۔ لیکن کبھی کبھی انسان ان صفات سے کام نہیں لیتا جو اسے Ø+یوانوں اور درندوں سے ممیزوممتاز کرتی ہیں۔ تو پھر وہ ان درندوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے جو اپنا رزق دوسرے جانوروں Ú©Ùˆ چیر پھاڑ کرØ+اصل کرتے ہیں کیونکہ وہ عقل Ùˆ شعور رکھنے Ú©Û’ باوجود ایسا کرتا ہے Û”
    Ø+لال Ú©Û’ معنی رسیاں کھول کر آزاد کر دینے Ú©Û’ ہیں اس لئے Ø+رام Ú©Û’ معنی اس Ú©Û’ الٹ ہوئے ،یعنی کسی Ú©Ùˆ کسی بات سے روک دنیا ØŒ منع فرمانایا اس پر مکمل پابندی لگا دینا۔ شرعی اصطلاØ+ میں Ø+رام کا تعین اللہ اور اس Ú©Û’ رسولﷺ Ù†Û’ کر دیا ہے۔تاہم اس Ú©ÛŒ تشریØ+ اسلامی تعلیمات Ú©ÛŒ روشنی میں علمائے کرام بھی کر سکتے ہیں۔
    اللہ تبارک تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان Ø+صول معاش میں کار زار Ø+یات میں نبرد آزما رہے اور اپنے دن رات Ú©ÛŒ تقسیم اس طرØ+ کرے کہ دن Ú©Ùˆ فکر معاش میں رہے اور رات Ú©Ùˆ آرام کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ،’’ اور ہم Ù†Û’ دن Ú©Ùˆ معاش کا وقت مقرر کر دیا‘‘۔(سورۃ نباء، 11 )
    دوسری جگہ ارشاد فرمایا،’’ اور ہم نے اس( زمین) میں تمہارے لئے سامان معیشت پیدا کیا، تم بہت کم شکر کیا کرتے ہو‘‘۔ (سورۃ الاعراف ، 10)
    مذکورہ آیات میں سامان معیشت Ø+اصل کرنے سے مراد رزق Ø+لال ہے۔رزق Ø+لال Ú©Ùˆ جہاد جیسی عظیم عبادت Ú©Û’ برابر لایا گیا ہے، کیونکہ رزق Ø+اصل کرنے Ú©Û’ لئے کافی تگ Ùˆ دو، Ù…Ø+نت Ùˆ مشقت جانفشانی اور نفس Ú©Ø´ÛŒ کرنا Ù¾Ú‘ÛŒ ہے۔اکثر کسب معاش Ú©ÛŒ تلاش میں وطن عزیز خویش Ùˆ اقارب سے بچھڑنا پڑتا ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، Ø+تیٰ کہ بیرونی ممالک جانے کا Ø+Ú©Ù… بھی ہے۔Ø+دیث نبوی ï·º ہے کہ ’’اے مسلمانو!روئے زمین Ú©Û’ پوشیدہ خزانوں میں روزی تلاش کرو‘‘۔(ترمذی شریف)Û”
    مذکورہ Ø+دیث Ú©ÛŒ اتباع میں دور اول Ú©Û’ مسلمانوں Ù†Û’ اپنی تجارت Ú©Ùˆ اتنی وسعت دی کہ ساری دنیا Ú©Ùˆ اپنی منڈی بنا لیا۔ جنوب مشرقی ایشیاء Ú©Û’ کئی ممالک خصوصاََ فلپائن اور انڈونیشیاء وغیرہ میں تو اشاعت دین Ù…Ø+ض تاجروں Ú©Û’ ذاتی کردار Ùˆ تبلیغ سے ہوئی ہے۔ اسلام ØŒ Ø+Ú©Ù… الہٰی Ú©Û’ مطابق کار زار Ø+یات میں بھرپور Ø+صہ لینے کا نام ہے۔ کسی بھی صØ+ت مند شخص Ú©Ùˆ اجازت نہیں کہ وہ در بدر دست سوال دراز کرے،یا بیٹھا کسی Ú©ÛŒ کمائی کھاتا رہے۔
    ایک غریب صØ+ابی Ø“ Ù†Û’ Ø+ضور اکرم ï·º سے امداد چاہی۔ آپ ï·º Ù†Û’ اسے بطور امداد ایک کلہاڑی خرید کر عطا فرمائی۔اور ہدایت فرمائی Ú©ÛŒ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچا کرو۔اس Ù†Û’ اس پر عمل کیا جس سے صØ+ابیؓ Ú©Û’ خورد Ùˆ نوش کا مسئلہ Ø+Ù„ باعزت طریقے سے ہو گیا۔ Ø+ضور اکرم ï·º Ú©ÛŒ کرم فرمائی اگرچہ ہر مسائل پر ہمہ وقت رہتی تھی مگر آپﷺ Ú©Ùˆ یہ بات ہرگز پسند نہ تھی کہ کوئی گداگر بنے۔ آپﷺ گدائی Ú©Ùˆ سخت ناپسند فرماتے تھے۔آپ ï·º فرماتے تھے کہ ’’ جو شخص اپنی پیٹھ پر Ù„Ú©Ú‘ÛŒ کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے بیچ کر اپنی آبرو بچائے تویہ اس سے بہترہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے‘‘۔ (صØ+ÛŒØ+ البخاری)
    Ø+ضرت عمر فاروقؓ کا معمول تھا کہ آپ Ø“ کسی Ú©Ùˆ خوشØ+ال دیکھتے تو اس Ú©Û’ پیشے Ú©Û’ بارے میں استفسار کرتے تھے، اور جب لوگ کہتے کہ کوئی کام نہیں کرتا، تو آپ Ø“ سخت برا مناتے اور کہتے کہ آج یہ شخص میری نظروں سے گر گیا ہے۔آپ Ø“ فرماتے تھے کہ’’ (کوئی پیشہ Ú©Ù… تر نہیں لیکن )کمزور سے کمزور پیشہ بھی لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے‘‘(بخاری)Û”
    اسلام کسب معاش Ú©Ùˆ انتہائی نیک اور اØ+سن عمل قرار دیتا ہے۔ مگر اس شرط Ú©Û’ ساتھ کہ کسب معاش Ú©Û’ طریقے بالکل جائز ہوں۔اسلام Ø+صول رزق Ú©Û’ ذرائع Ú©Ùˆ چھان Ù¾Ú¾Ù¹Ú© کرنے کا Ø+Ú©Ù… دیتا ہے کہ اس میں ناجائز کا شائبہ تک باقی نہ رہے۔کسی دوسرے مذہب اور ضابطہ Ø+یات میں اتنی چھان Ù¾Ú¾Ù¹Ú© کا تصور بھی نہیں Ú©ÛŒ جاسکتا۔ اسلام Ú©ÛŒ رو سے کوئی فرد یا طبقہ دیگر افراد Ùˆ طبقات معاشرہ Ú©Ùˆ مالی Ùˆ مادی نقصان پہنچا کر نفع Ø+اصل نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جائز آمدنی Ú©Ùˆ بھی ناجائز طریقوں پر استعمال نہیں کر سکتا۔
    کسب معاش فرض بھی ہے اور مستجب بھی، ایک Ø+د سے زیادہ Ø+رام بھی ہو سکتا ہے۔اتنا کمانا فرض ہے جس سے اہل وعیال Ú©ÛŒ تمام ضروریات پوری ہو جائیں۔ اس سے زیادہ کمانا مستجب ہے۔ بشرطیکہ نیت نیک ہو۔نیت یہ ہو کہ یہ رقم Ø+اجت مندوں اور رفاہ عام میں استعمال ہو Ú¯ÛŒ ۔وہ کسب ناجائز اور Ø+رام بن جاتا ہے جو غرور Ú©Û’ دروازے کھولتا ہے۔ جس سے زندگی دین سے غافل ہو جائے اس Ú©ÛŒ اجازت نہیں ہے۔
    انبیائے کرام Ø‘ Ù†Û’ اللہ Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… Ú©Û’ مطابق مختلف پیشے اختیار کئے۔Ø+ضرت ابراہیمؑ اور Ø+ضرت اسماعیل ؑنے معماری کی۔ Ø+ضرت نوØ+ Ø‘ اور Ø+ضرت زکریا Ø‘ Ù†Û’ Ù„Ú©Ú‘ÛŒ کا کام کیا۔ Ø+ضرت دائود Ø‘ بادجود بادشاہ ہونے کے،زرہ بنا کر آمدنی Ø+اصل کیا کرتے تھے۔Ø+ضرت یسع Ø‘ کھیتی باڑی کیا کرتے تھے، Ø+ضرت عیسٰی Ø‘ Ú©Ù¾Ú‘Û’ رنگتے تھے۔ Ø+ضرت موسیٰ Ø‘ اور Ø+ضور نبی کریم ï·º بکریاں چراتے تھے۔ لہٰذا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے عمدہ اور بہتر ذریعہ معاش وہ ہے جس میں دست Ùˆ بازو سے کام لینا Ù¾Ú‘Û’ Û” رزق Ø+لال Ú©Û’ بارے میں متعدد اØ+ادیث موجود ہیں، کسب Ø+رام Ú©ÛŒ مذمت میں Ø+ضور نبی کریم ï·º Ú©Û’ ارشادات ہمارے لئے رہنما اصول ہیں۔ ذیل Ú©ÛŒ Ø+دیث پڑھیے،
    ’’ کوئی شخص Ø+رام مال کھائے ØŒ پھر اس سے خدا Ú©ÛŒ راہ میں صدقہ دے تو یہ صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا Û” اور اگر اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے تو برکت سے خالی ہو گا‘‘ (ترمذی شریف)
    Ø+رام کھانے والا شخص نہ صرف قلبی Ùˆ ذہنی سکون Ú©Û’ لئے ترستا ہے، بلکہ اس Ú©Ùˆ عبادت Ùˆ ریاضت سے بھی بے رخی ہو جاتی ہے۔اگر ایسا شخص Ø+رام Ú©ÛŒ کمائی میں سے زکوٰۃ دیتا ہے، یا Ø+ج کرتا ہے، تو وہ ایسا Ù…Ø+ض مجرم ضمیر Ú©ÛŒ تشفی Ú©Û’ لئے کرتا ہے ورنہ اس Ú©ÛŒ کوئی شرعی Ø+یثیت نہیں ہے۔Ø+رام کمائی سے زکوٰۃ Ùˆ Ø+ج Ú©Û’ اسلامی فرائض کیسے ادا ہو سکتے ہیں۔ جبکہ صدقہ Ùˆ خیرات Ú©ÛŒ نفلی عبادات بھی رد ہوجاتی ہیں۔
    زہر تھوڑا بھی ہو تو زہر ہی ہوتا ہے،اس زہر Ú©Ùˆ کسی بھی Ø´Û’ میں ملا دیا جائے وہ زہر ہی رہے گا، اسی طرØ+ پلید Ø´Û’ پاک Ø´Û’ میں ملا دی جائے تو وہ پاک مال Ú©Ùˆ بھی مشتبہ کر دیتی ہے۔Ø+ضرت امام Ø+سین Ø“ کہتے ہیں کہ میں Ù†Û’ رسول اللہ ï·ºÚ©Ùˆ فرماتے سنا ہے کہ ’’جو چیز تم Ú©Ùˆ Ø´Ú© میں ڈال دے، اس Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو، اس چیز Ú©ÛŒ طرف میلان رکھو جو تم Ú©Ùˆ Ø´Ú© میں نہ ڈالے‘‘۔ایسے مواقعوں پر انسان کا ضمیر غلط رہنمائی نہیں کرتا۔رسول کریم ï·º Ù†Û’ فرمایا،’’ نیکی وہ ہے جس سے انسان خود مطمئن ہو جائے۔ اور اس Ú©Û’ دل Ú©Ùˆ اطمینان ہو جائے۔ اور گناہ وہ ہے کہ جس سے انسان کا ضمیر خلش کرے اور جس سے اس Ú©Û’ سینے میں Ø´Ú© پیدا ہو جائے‘‘۔
    انسان کا ضمیر بہترین کسوٹی مہیا کرتا ہے، وہ کسی بھی Ø´Ú© Ú©ÛŒ صورت میں رہنمائی کرتا ہے۔ Ø´Ú© Ùˆ شبہ Ú©Û’ معاملے میں کام نہ کرنے کا سگنل دیتا ہے۔ ضمیر Ú©ÛŒ رہنمائی ہر صالØ+ انسا Ù† Ú©Ùˆ میسر ہوتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مسلسل گناہ Ú©Û’ بعد ضمیر وقتی طور پر دب جائے یا خوابیدہ ہو جائے اور ہدایت پا کر جاگ جائے۔ تقویٰ بھی یہی ہے کہ جب کسی مال Ú©Û’ بارے میں Ø´Ú© ہو کہ وہ Ø+رام ہے یا Ø+لال ،تو اسے استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔
    عہد رسالت ï·º میں خراج Ùˆ جزیہ Ú©ÛŒ جو رقم آتی تھی،وہ Ø+اجت مندوں پر صرف ہوتی تھی۔Ø+ضور نبی کریم ï·º Ú©ÛŒ سادہ بود Ùˆ باش کا عملی نمونہ تربیت یافتگان پرمرتب ہونا فطری امر تھا،چنانچہ خلفائے راشدین Ø“ بھی اسوہ Ø+سنہ کا بہترین نمونہ تھے۔Ø+ضرت ابوبکر صدیق ؓخلافت Ú©ÛŒ ابتداء میں بزازی کا کام کیا کرتے تھے، صØ+ابہ کرام Ø“ Ù†Û’ خلافت Ú©ÛŒ ہمہ وقت مصروفیات Ú©Û’ پیش نظر Ø+ضرت ابوبکر صدیقؓ Ú©Ùˆ روزینہ لینے پر مجبور کیا۔وہ اتنا لیتے تھے کہ جس سے بمشکل گزارہ ہوسکے۔تاریخ میںآپ Ø“Ú©ÛŒ سادگی اور دیانت داری Ú©Û’ Ø+یرت انگیز واقعات رقم ہیں۔بیت المال سب مسلمانوں کا تھا۔خلفیہ تو Ù…Ø+ض Ù…Ø+افظ مقرر کئے گئے تھے۔وہ امانت دار تھے، خیانت نہیں کرسکتے تھے۔
    مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر اپنی روزی کا سامان قرآن پاک کی کتابت اور ٹوپیاں بنا کر پیدا کرتے تھے ۔ شاہی خزانہ سے ذاتی اخراجات کا کوئی سروکار نہ تھا۔آپ کی تجہیز و تکفین وصیت کے مطابق ذاتی کمائی سے کی گئی۔
    رزق Ø+رام Ú©ÛŒ معروف قسم کسی کا Ø+Ù‚ غصب کرنا ہے۔ غصب Ú©ÛŒ متعدد اشکال ہیںمگر عام طور پر کسی کا مال دبا لیا جاتا ہے، یا زمین میںکسی Ù¹Ú©Ú‘Û’ پر ناجائز قبضہ جما لیاجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس بارے میںواضØ+ Ø+Ú©Ù… دیا ہے،’’ تم لوگ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو‘‘۔(Ø§Ù„Ø¨Ù‚Ø ±Û:Û±Û¸Û¸)
    ارشاد نبوی ï·º Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ مزید وضاØ+ت کر دی، ’’کسی مسلمان Ú©Ùˆ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مال دبا Ù„Û’ کیوں کہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا مال غصب کرنا Ø+رام کر دیا ہے‘‘۔ (Ø+دیث نبوی)
    اراضی سے متعلق Ø+دیث نبوی ï·º ہے کہ ’’جو آدمی کسی Ú©ÛŒ زمین میں ایک بالشت بھر ٹکڑا بھی ظلم سے غصب کرے گا، وہ اللہ Ú©Û’ سامنے اس Ø+الت میں لایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہو گا‘‘۔
    مذکورہ Ø+دیث میں فقہائے کرام Ù†Û’ فرمایا ہے کہ ناجائز اراضی پر مسجد قائم ہو تو وہاں بھی نماز نہیں Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ جا سکتی۔ اب ہم اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ مختلف طبقات میں یہ تصور Ø+رام Ùˆ Ø+لال کس Ø´Ú©Ù„ میں موجود ہے۔ پہلے ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جو رشوت Ú©ÛŒ پیدائش اور نشو Ùˆ نما کا سبب بنتے ہیں۔رشوت ستانی بہت بڑی معاشرتی برائی ہے، اس کا آغاز اس وقت سے ہی ہو چکا تھا جب انسانی معاشرہ وجود میں آیا۔ اور جب اس Ú©Û’ نتیجے میں سماجی تغافل شروع ہوا۔انسانی معاشرے میں ہر طبقہ معاشی استØ+کام Ú©Û’ لئے دوسرے طبقے کا استØ+صال کر رہا ہے،رشوت ستانی بھی استØ+صال Ú©ÛŒ ایک صورت ہے۔
    جب معاشرہ اخلاقی اقدار سے انØ+راف کرتا ہے تو آہستہ آہستہ یہ انØ+راف اس Ø+د تک بڑھ جاتا ہے کہ نفسیاتی طور پر برائی برائی نہیں سمجھی جاتی۔جس Ú©Û’ نتیجے میں ملازمت پیشہ طبقے کا ایک Ø+صہ رشوت Ú©Ùˆ برائی نہیں بلکہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور وقت Ú©ÛŒ ایک ضرورت سمجھ بیٹھتا ہے۔ آج Ú©Ù„ زر Ú©ÛŒ فراوانی Ú©ÛŒ وجہ سے قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور تنخواہیں سکڑتی جا رہی ہیں۔اس لئے Ù…Ø+دود تنخواہ پانے والا اپنامعیار زندگی Ú©Ùˆ برقراررکھنے Ú©Û’ لئے رشوت Ú©Ùˆ مجبوری سمجھتا ہے۔مگر وہ لوگ سادگی میں اس کا علاج تلاش نہیں کرتے Û” اکثر رشوت Ú©Û’ پیسے کوبری عادتوں میں برباد کرتے ہیں۔قرآن پاک میں رشوت خوروں کا ٹھکانہ جہنم بتایا گیا ہے۔Ø+ضور اکرم ï·º Ù†Û’ رشوت Ú©ÛŒ مذمت اور اس کا لین دین کرنے والوں پرصریØ+ الفاظ میں لعنت فرمائی ہے۔آپ ï·º Ú©ÛŒ تعلیمات Ùˆ عمل کا اثر صØ+ابہ کرام Ø“ Ú©Û’ قول Ùˆ فعل میں جذب ہو گیا تھا۔وہ Ø+رام مال سے یوں بچتے تھے جیسے کوئی دہکتی ہوئی آگ سے بچتا ہو۔
    ناجائز مراعات Ø+اصل کرنا بھی رشوت خوری Ú©ÛŒ ایک Ø´Ú©Ù„ ہے۔جیسا کہ اگر کوئی Ø+اکم ØŒ وزراء، عوامی نمائندہ یا کوئی اور اعلیٰ صاØ+ب اختیار شخص اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتی یا معمولی تØ+ائف وصول کرتا ہے تو وہ اشیاء بھی رشوت Ú©Û’ زمرے میں آئیں گی۔انسان نجانے Ú©Ù† Ú©Ù† طریقوں سے اپنے بچوں اور رشتے داروں Ú©Û’ لئے جائیدادیں بناتا ہے لیکن میں Ù†Û’ یہ المیہ بھی دیکھا ہے کہ بچے ہی اپنے باپ Ú©Û’ مرنے Ú©ÛŒ بددعائیں بھی مانگتے ہیں۔تاکہ مرنے Ú©Û’ بعد جائید تقسیم کریں۔ Ø+رام کمائی Ú©ÛŒ وافر جائیداد بچوں Ú©Ùˆ گناہ Ú©ÛŒ جانب مائل کرتی ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔رزق Ø+رام سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ فرد ہر وقت خدا اور موت Ú©Ùˆ یاد رکھے۔ذکر الہٰی سے عظمت کا ا ظہار نصیب ہوتا ہے ØŒ یہ تقویٰ اور اØ+ترام قانون Ú©ÛŒ بنیاد ہے۔ موت Ú©Û’ استØ+ضار سے دنیا سے بے رغبتی اور زہدپیدا ہوتا ہے۔




  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: اسلام میں Ø+رام Ùˆ Ø+لال کا تصور .... Û” ڈاکٹر Ù…Ø+مد قائم الاعظمی


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •