الیکشن میں دھاندلی کی منفی روایت آج بھی برقرار.. عبدالکریم


پاکستان میں آج بھی الیکشن دھاندلی کے بغیر نہیں ہوتے، آج بھی ہارنے والا اپنی ہار نہیں مانتا بلکہ جو بھی الیکشن ہارتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ موجودہ ضمنی انتخابات میں دھاندلی نے ہماری جان نہیں چھوڑی، این اے 75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب ہوا ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں پولنگ والے دن دو لوگ مارے گئے، اس واقعے کے سبب اسے خونی الیکشن ہی کہا جائے گا۔ اس معاملے میں سب سے پہلے حکومت کا قصور یہ ہے کہ یہاں لاءاینڈ آرڈر پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی، جو لوگ اس الیکشن میں مرے ہیں وہ کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہوں، ان کی موت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اگر حکومت وہاں حالات کنٹرول نہیں کر سکتی تھی تو الیکشن کیوں کروایا گیا۔ لوگوں کی جان پر کھیل کر الیکشن ہوا، تو یہ بزدار حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ ذمہ داروں کا فوری پتہ لگائیں اور قرار واقعی سزا دیں۔ یہ لوگ کسی بھی پارٹی سے ہوں، انہیں ہر صورت پکڑا جائے۔

پنجاب حکومت براہ راست اس واقعے کی ذمہ دار ہے، گڈ گورننس کا سارا پول کھل گیا ہے۔ اس الیکشن میں دو تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوئی ہے۔ ایک تو دو لوگوں کا قتل ہونا اور دوسرا الیکشن کے دوران اراکین کا غائب ہونا، ان کے فون بند ہونا، یہ سب باتیں اس الیکشن کو متنازع بناتے ہیں۔ ن لیگ کہتی ہے ان کے ساتھ یہ دھاندلی مختلف قسم کی ہوئی ہے، پہلے تو صرف الیکشن چرایا جاتا تھا، اب کی بار تو الیکشن کرانے والے عملے کے لوگ بھی غائب ہوگئے۔

یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب واقعہ تھا، ن لیگ کہہ رہی ہے کہ اس الیکشن کو دوبارہ کرا یا جائے لیکن حکومت کے اراکین کہہ رہے ہیں اس الیکشن میں ان کی فتح ہوئی ہے اور تحریک انصاف کا امیدوار جیت چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کے نتیجے کا اعلان کردینا چاہیے۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن اس الیکشن کی تحقیقات کر رہا ہے اور ابھی تک نتیجے کو روکا ہوا ہے۔ اس الیکشن میں ایک طرف تو اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ نوازشریف کے بیانیے کو تقویت ملی ہے، لوگ نوازشریف کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں، لوگ نواز شریف کے اداروں مخالف بیانیے کے ساتھ بھی کھڑے ہیں۔ لوگ اس حکومت سے تنگ ہیں اپوزیشن کے نزدیک ضمنی انتخابات میں کامیابی اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ ہیں۔ اس سب کے باوجود حکومت اپنی کامیابی کے گن گا رہی ہے، حکومت کہہ رہی ہے اس الیکشن نے نواز شریف کے حکومت اور ادروں مخالف بنانیے کو زمین برد کردیا ہے۔ عوام نے نواز شریف کے بیانیے کو مسترد کردیا ہے، اب عوام نواز شریف کےجھانسے میں نہیں آئیں گے۔ عوام ن لیگ اور پی ڈی ایم کو جان چکے ہیں۔ عوام کا عمران خان پر اعتماد قائم ہوچکا ہے، آج بھی عوام عمران خان کو نجات دہندہ مانتے ہیں۔

کے پی کے ضمنی انتخاب میں بھی تحریک انصاف کو شکست ہوئی ہے، اس شکست کا ذمہ دار پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک اور اس کے بیٹے کوا ٹھہرایا جارہا ہے۔ اس شکست پر پرویز خٹک کے بھائی سے استعفٰی بھی لے لیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی دوبارہ حکومت بھی پرویز خٹک کی وجہ سے آئی ہے۔ اس بار کیونکہ کپتان نے کے پی میں اپنا کھلاڑی تبدیل کیا تھا جس کی وجہ سے خٹک خاندان عمران خان کے اس فیصلے سے ناراض ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کے فیصلے سے کے پی میں تقسیم کا شکارہے۔ پارٹی میں اس تقسیم کا اثر آپ کو موجودہ ضمنی انتخاب میں نظر بھی آیا ہے۔ خٹک خاندان وزیراعلٰی محمود خان کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا، یہی وجہ ہے عمران خان اس سیاسی تقسیم کی وجہ سے کے پی میں خاصے پریشان ہیں، خٹک خاندان کو جہاں بھی موقع ملتا ہے تو وہ اپنی ناراضگی کا بھر پور اظہار کرتے ہیں۔ ایک سیاسی جلسے میں پر ویز خٹک نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عمران خان کی حکومت میرے ایک اشارے پر ہے، یعنی کے پی اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت پرویز خٹک کی محتاج ہے۔

نوشہرہ میں جو ن لیگ کا امیدوارجیتا ہے وہ پی ڈی ایم کا مشترکہ امیدوار ہے۔ تحریک انصاف یہ کہتی ہے کہ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک اور اس کے بیٹے نے مدد کی ہے، تحریک انصاف کی اس اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے پی ڈی ایم نے فائدہ اٹھایا ہے۔ عمران خان خان کو چاہیے کہ پی ٹی آئی کی اس اندورونی ٹوٹ پھوٹ پر نوٹس لیں۔ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ اختلافات پارٹی کو کوئی بڑا نقصان نہ پہنچائیں۔ ان سیاسی اختلافات کا اثر آنے والے سینیٹ الیکشن پر بھی پڑے گا۔ اس کا سیاسی فائدہ پی ڈی ایم کو ہو گا۔

اگر حالات ایسے رہے تو کے پی میں زرداری فیکٹر سینیٹ کے الیکشن میں کوئی بڑا اپ سیٹ کر سکتا ہے جو تحریک انصاف کو بہت بڑ ا سیاسی نقصان دے سکتا ہے اور جس سے پارٹی میں مزید ٹوٹ پھوٹ ہوگی، عمران خان کو جتنا جلدی ہو ان سیاسی اختلافت کو ختم کرنا ہوگا۔

جہاں تک سینیٹ الیکشن کا تعلق ہے ضمنی انتخابات نے تحریک انصاف میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پنجاب میں بھی لوگ بزدار حکومت سے نا خوش ہیں اور اختلافات عروج پر ہیں۔ بزدار صاحب میں اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ پنجاب میں پارٹی کو متحد کر سکیں۔ لوگ بزدار کی نفرت میں سینیٹ میں کہیں اورجا سکتے ہیں۔ اسی طرح کے پی میں بھی حالات ایسے ہیں، وہاں بھی اختلافات عروج پر ہیں۔ پارٹی کے لوگ محمود خان سے متنفر ہیں۔ ضمنی انتخاب میں ناکامی سے یہ نفرت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسکا اثر سینیٹ انتخاب میں پڑ سکتا ہے۔ محمود خان میں پارٹی کو متحد رکھنے کی صلا حیت نہیں ہے۔ ان دونوں صوبوں سے پی ڈی ایم صرف وزیراعلٰی کی ناکامی کہ وجہ سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

اسی طرح بلوچستان کے وزیراعلٰی بھی کہتے پھر رہے ہیں کہ لوگوں کو پیسے کی بہت آفر کرائی جا رہی ہے، بلوچستان میں بھی پیسہ کوئی بڑا اپ سیٹ کر سکتا ہے۔ لوگ بک سکتے ہیں۔ اسی طرح نیشنل اسمبلی میں بھی لوگ اسد قیصر سے ناخوش ہیں۔ وفاق میں بھی صوبائیت کی سیاست ہو رہی ہے۔ پنجاب والوں کو اعتراض ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ان کی بات نہیں سنتے ہیں اور اسد قیصر صاحب کا ایک صوبے کی طرف جھکاؤ رہتا ہے۔ اس کا فائدہ پی ڈی ایم اٹھا سکتی ہے۔

حکومت سینیٹ کے لیے حفیظ شیخ صاحب کو لائی ہے کیونکہ حفیظ شیخ تحریک انصاف کا اصل فیس نہیں ہے جس کے مقابلے میں پی ڈی ایم اپنا مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کو لائی ہے۔ یوسف رضا گیلانی پی ڈی ایم کے قومی اسبلی میں سینیٹ کے مشترکہ امیدوار ہونگے، مقابلہ بہت سخت ہوگا۔ زرادری صاحب کی کوشش ہے کہ گیلانی صاحب کو کامیاب کرایا جائے۔ اس کی کامیابی سے پی ڈی ایم کو دو فائدے ہونگے ایک یہ کہ پی ڈی ایم یوسف رضا گیلانی کومستقبل میں چیئرمین سینیٹ بنانے کا سوچ رہی ہے دوسرا یہ کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت عمران خان کے لیے عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ایک لٹمس پیپر کا بھی کا م دے گی۔

اسی طرح زرداری صاحب ایک تیر سے دو شکار کرنے جارہے ہیں ، یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پی ڈی ایم کی سیاسی فتح ہوگی۔اور اس میں حکومت کی ہار کے ساتھ عمران خان کے کرپشن کے بیانیے کی بھی شکست ہوگی۔ زرداری صاحب کو نواز شریف کو ان ہاؤس تبدیلی کی بات کرتے ہیں اس خواب کی تعبیر بھی سامنے آجائے گی۔اپوزیشن سینیٹ الیکشن کے بعد اس پوزیشن میں ہوگی کہ عمران خان صاحب کے لیے عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے یا نہ لائی جائے ؟اس سوال جواب بھی اپوزیشن کو مل جائے گا۔