گوادر…ادھوری نہیں پوری کہانی ... منیر احمد بلوچ
GwadarPort.jpg
ففتھ جنریشن وار فیئر یا ہائبرڈ وار کی تکنیک دیکھنے میں بہت سادہ لگتی ہے لیکن یہ اس قدر پُر اثر ہے کہ اس کی کاٹ سے لوہے اور سٹیل کی بڑی بڑی چادریں اور اونچی اونچی مضبوط باڑیں بھی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ دور نہ جائیے‘ انڈین کرونیکلز اور شری واستو گروپ کا حالیہ دھماکا خیز انکشاف دیکھ لیجیے کہ کس طرح بھارت نے دس جعلی این جی اوز، ہیومن رائٹس تنظیموں اور 550 فیک ویب سائٹس کے ذریعے مسلسل پندرہ برسوں تک پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا طوفان اٹھائے رکھا۔ ملک کے عسکری اداروں کے خلاف پروپیگنڈا، نفرت، عدم اعتماد کی فضا اور شکوک و شبہات ابھارتے ہوئے اس طرح کے تاثرات کو مضبوط کیا گیا کہ اس ملک میں جب کبھی بھی بہتری آئی یا جو بھی اچھا کام ہوا ‘وہ کسی ادارے نے نہیں کیا بلکہ ایسی ایسی کہانیاں گھڑی گئیں جن کا مقصد ایسی شخصیات کو قوم کا نجات دہندہ ا ور ہیرو بنا کر پیش کرنا تھا جن کے نام سے بغاوت اور علیحدگی کی پُرتشدد تحریکیں زوروں پر ہوں۔ مقصد یہی تھا کہ ایسی شخصیات کے بارے عقیدت پروان چڑھ سکے اور سادہ لوح عوام کو کسی طور اپنا ہمنوا بنایا جا سکے۔
آج کل ایک صاحب اٹھتے بیٹھتے گوادر کے پاکستانی ملکیت میں آنے کے بارے ایسے ایسے ''سربستہ راز‘‘ کھولتے ہیں جن سے ان کا مقصد یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ پاکستان کے اداروں میں تو اتنی ہمت ہی نہ تھی کہ وہ چھوٹی سی ریاست گوادر کا علاقہ مسقط سے واپس لے سکتے۔ ان صاحب کے بقول‘ آج جب پوری قوم گوادر بندرگاہ کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہے تو یہ بتایا جانا چاہئے کہ گوادر کی واپسی کا کارنامہ اکبر بگٹی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ کیا یہ لوگ اس قسم کی کہانیاں سنا کر اور لوگوں میں پھیلا کر بلوچستان میں جلتی آگ پر مزید تیل ڈالنا چاہتے ہیں؟ یہ گروپ اس طرح کے جھوٹ بولتے اور لکھتے ہوئے نہ جانے کن لوگوں کے جذبات کو تسکین پہنچاتا ہے کہ جہاں بیٹھتا ہے پاکستان کے اداروں پر کوئی داغ، کوئی بے بنیاد الزام لگانا نہیں بھولتا۔ اکبر بگٹی کی وجہ سے گوادر کی بلوچستان میں شمولیت کا قصہ سنانے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ علیحدگی پسندوں کو مزید شہ دی جائے۔ گوادر کی شمولیت کا سہرا نواب اکبر بگٹی کے سر باندھتے ہوئے یہ کہا جا سکے کہ دیکھو وہ کتنا محب وطن تھا جسے آپریشن کر کے مار دیا گیا۔اس قسم کے جھوٹ‘ سچ، آدھی ادھوری کہانیاں سوچ سمجھ کر عوام میں بیان کی جاتی اور پھیلائی جاتی ہیں۔ اب اگر ذرا سی تحقیق کی جائے کہ ایسے لوگوں کو جھوٹ بولنے میں کیا فوائد نظر آتے ہیں تو ان کے ٹویٹس، مضمون اور پروگرامز سامنے رکھ لیجئے، یہ سب لوگ آپ کو ففتھ جنریشن وار فیئر کے سرخیلوں میں نظر آئیں گے۔ جس طرح بلجیم اور جنیوا میں شری واستو گروپ پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کر رہا تھا، اسی طرح‘ ایسے ہی لوگ ملک کے اندر یہ محاذ سنبھالے ہوئے ہیں۔
ایسے تمام حضرات کی اطلاع اور ریکارڈ کی درستی کیلئے گوادر کے پاکستان میں انضمام بارے چند حقائق پیش خدمت ہیں؛ تاہم یہ واضح رہے کہ اس سے کسی سیاستدان یا سول حکومت کی تضحیک مقصود نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد کسی ریاستی ادارے کی تعریف یا خوشامد ہے بلکہ یہ وہ حقائق ہیں جن کا سامنے لانا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو تقویت دینے کیلئے وقفے وقفے سے جو گروہ اٹھ کر گوادر کا سہرا کسی ایسی شخصیت کے سر باندھ دیتے ہیں جس کا سارے قصے میں کوئی ذکر ہی نہ ہو‘ اس کی بروقت تصحیح کی جا سکے۔ کسی سول حکومت یا سیاسی شخصیت کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیا جانا چاہیے اور کسی اچھے کام کی تعریف کرتے ہوئے ڈنڈی مارنا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ سول اور عسکری ادارے‘ دونوں پاکستان کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور ملک اسی وقت آگے بڑھتا ہے جب سول اور عسکری ادارے ایک ساتھ سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ جب گوادر کی واپسی بارے سوچنا شروع کیا گیا تو اس وقت کی سول حکومت کی جانب سے بہت سی تجاویز سامنے لائی گئیں۔ عسکری اداروں سے جب ان کی رائے اور طریقہ کار پوچھا گیا تو انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون کو یہ کہہ کر کسی بھی قسم کا فوجی آپریشن کرنے سے منع کر دیا کہ اگر پاکستان کی فوج گوادر کے حصول کیلئے فوجی طاقت کا استعمال کرتی ہے تو یہ کسی طور بھی منا سب نہیںہو گا۔ جو لوگ آج اس موقف پر تبرے برسا رہے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ کیا ہم گوادر حاصل کرنے کیلئے مسقط پر بم باری کر دیتے؟ اگر ایسا کیا جاتا تو ریاستِ عمان‘ جس کی تاجدار اس وقت برطانیہ کی ملکہ تھیں، کے ساتھ ساتھ پاکستان کی برطانیہ سے بھی براہِ راست لڑائی شروع ہو جانے کا اندیشہ پیدا ہو جانا تھا، جس سے دنیا بھر میں پاکستان کیلئے مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں۔
لاہور سے شائع ہونے والے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے مطابق‘ پاکستان کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے 1958ء میں پاکستان کے خزانے سے سلطنت مسقط کو 84لاکھ ڈالر ادا کیے تھے۔ جب یہ خبر عام ہوئی کہ چوراسی لاکھ ڈالر ادا کرنے کے بعد گوادر حاصل کیا گیا ہے تو اس وقت کی حکومت نے اس خبر کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ گوادر کی واپسی کیلئے کسی قسم کی رقم ادا نہیں کی گئی لیکن کچھ دنوں بعد ہی ٹائم میگزین نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے 22 ستمبر1958ء کے شمارے میں بتا دیا کہ عوام سے غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ حکومتی دعووں کے بر عکس پاکستان نے گوادر کو سلطنت مسقط سے باقاعدہ رقم ادا کر کے خریدا ہے۔ بعد ازاں اس وقت کے وزیراعظم فیروز خان نون نے اپنی کتاب''FROM MEMORY‘‘ کے صفحہ 299 پر ٹائم میگزین کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا: ہاں! یہ سچ ہے کہ مسقط کو بھاری رقم ادا کر کے ہمیں گوادر خریدنا پڑا اور ہم نے عسکری قیا دت کے مشورے پر گوادر کے حصول کیلئے فوجی طاقت کا استعمال اس لیے نہیں کیا کہ سلطنت عمان اس وقت برطانیہ کے زیر تسلط تھی اور ہماری طرف سے کسی بھی فوجی کارروائی کی صورت میں ہمارا ٹکرائو براہِ راست برطانیہ سے ہونے کا خدشہ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے عرب دنیا سے تعلقات میں ہمیشہ کیلئے تلخی آ جانا تھی۔ گو کہ حکومت پاکستان 1949ء سے ہی اپنا یہ علاقہ مسقط سے واپس لینے کی مسلسل کوششیںکر رہی تھی لیکن برطانوی حکومت آڑے آ رہی تھی۔ آٹھ سال کی لگاتار کوششوں کے بعد برطانوی حکومت کچھ شرائط پر گوادر پاکستان کو دینے پر رضامند ہوئی اور اس میں اکبر بگٹی کا کہیں دور دور تک بھی ذکر نہیں ہے۔ ٹائم میگزین نے اپنے 22 ستمبر 1958 کے شمارے میں ''The Sons of Sindbad‘‘ کے عنوان سے گوادر کے پاکستان سے الحاق بارے لکھا ''ایشیا سے عملداری کا آخری غیر ملکی جھنڈا بھی اتار لیا گیا ہے‘‘۔
رقم دے کر اپنا علاقہ واپس لینے کیلئے پاکستان دنیا میں واحد مثال نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے اس قسم کا ایک بین الاقوامی سودا امریکا نے 30 مارچ 1867ء کو روس کو 7.2 ملین ڈالر ادا کرتے ہوئے کیا تھا جب الاسکا کی ریاست واپس خریدی تھی۔ پھر امریکا نے1917ء میں ''Virgin Island‘‘ حاصل کرنے کیلئے ڈنمارک کی حکومت کو 25 ملین ڈالر ادا کیے جبکہ حکومت پاکستان نے اس وقت کی بیس ہزار کے قریب آبادی پر مشتمل گوادر کا 300 مربع میل علاقہ عمان کے سلطان کو 84 لاکھ ڈالر نقد ادا کرتے ہوئے خریدا۔ گوادر کی واپسی کیلئے سلطنت برطانیہ نے ڈیل کرائی تھی اور ان 84 لاکھ ڈالرز میں سے برطانیہ نے سلطانِ مسقط کو صرف 20 لاکھ ڈالر دیے تھے اور باقی 64 لاکھ ڈالر بحق ملکہ معظمہ‘ برطانیہ نے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ یہ ہیں گوادر کے حوالے سے اصل حقائق جنہیں توڑ مروڑ کر اپنے جھوٹے بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔