اُلجھنستان .... ایم ابراہیم خان
ہمارا قومی مزاج بہت سی خامیوں اور خرابیوں کا ملغوبہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک طرف اشتعال کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے اور دوسری طرف پژمردگی ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی۔ زندگی مجموعی طور پر بد نظمی کے مرحلے سے گزر کر اب بے نظمی کے دائرے میں داخل ہو رہی ہے۔ جہاں بے نظمی رواج پانے لگے وہاں کچھ بھی ٹھکانے پر نہیں رہتا۔ ہمارا معاشرہ رفتہ رفتہ اُس مقام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں شاید کوئی بھی معاملہ اپنے منطقی مقام پر دکھائی نہ دے۔ خرابی کی یہ کیفیت کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہوئی۔ عشروں کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی عمل نے چھوٹی چھوٹی خرابیوں کو پروان چڑھاکر معاشرے کو اس مرحلے تک پہنچایا ہے۔ سرِدست کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جو مستقل نوعیت کی خرابی سے دوچار نہ ہو۔ انفرادی اور اجتماعی سطح کے کم و بیش تمام معاملات مختلف علّتوں سے آلودہ ہیں۔ یہ سب کچھ کسی کو بھی قنوطیت کے گڑھے میں گرانے کے لیے کافی ہے۔ جنہیں معقول نَفسی اور اخلاقی تربیت نہ دی گئی ہو وہ ماحول کو دیکھ دیکھ کر اپنے ذہن کو مزید الجھا ہوا پاتے ہیں اور مایوسی کے گڑھے میں لڑھکتے جاتے ہیں۔
ذہنی الجھنوں کا بلند ہوتا ہوا گراف کم و بیش تمام ہی معاملات کو مزید خرابیوں کی طرف لے جارہا ہے۔ قوم کو بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر بہت کچھ کیا جانا ہے مگر افسوس کہ کچھ کرنا تو درکنار‘ اب تک اس طرف متوجہ ہونے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔ مختلف عوامل نے معاشرے کے ساتھ ساتھ عام آدمی کے ذہن کو بھی ''الجھنستان‘‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ اخلاقی و روحانی تربیت سے محروم رہنے والوں میں بدمزاجی پنپتے دیر نہیں لگتی۔ کیا یہ سب کچھ محض تماشے کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہے گا؟ کیا معاملات کے درست کرنے کی کوئی صورت نکالنے پر توجہ نہیں دی جائے گی؟ کیا ہمارے معاشرے کا مقدر صرف افتراق و انتشار اور انحطاط و زوال ہے؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں متعدد معاشرے ایسی ہی کیفیت سے نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔ کہیں کہیں معاشرتی ڈھانچے مکمل طور پر ناکامی سے بھی دوچار ہوئے۔ پھر بھی ہم دیکھتے آئے ہیں کہ کوئی قوم راکھ سے ڈھیر سے اٹھتی ہے اور تعمیرِ نو کے مراحل سے گزرتی ہوئی کسی قابلِ رشک مقام تک پہنچ کر دم لیتی ہے۔ بعض معاشروں نے جنگ کے نتیجے میں وسیع البنیاد، ہمہ جہت تباہی کا سامنا کرنے کے بعد بھی اپنے آپ کو نئی زندگی بخشنے کی ٹھانی اور محنت ِ شاقّہ سے ایسا کرنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیا۔ پاکستانی معاشرہ بہت سی اندرونی اور بیرونی خرابیوں اور خامیوں سے دوچار ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ تو کیا یہ سب یونہی جھیلا جانا چاہیے؟ مزاحمت کا خیال دل سے نکال دیا جائے؟ یقینا نہیں! کوتاہیوں کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جو ہمارے لیے جینا دشوار کرتی ہیں مگر یہ خرابیاں ہی تو ہیں جو ہمیں زندگی کی نئی جہت کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ جب کسی بھی معاشرے میں خرابیاں ایک خاص حد سے گزرتی ہیں تو نئی سوچ ابھرتی ہے۔ نئی سوچ جینے کا نیا انداز متعارف کراتی ہے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا آیا ہے۔ معاشرے انحطاط کے عمل سے گزر کر مکمل زوال کی طرف چلے جاتے ہیں مگر پھر اپنی ہی راکھ سے دوبارہ ابھرتے ہیں۔ ہم انوکھے نہیں کہ ایسا نہ کر پائیں۔
مایوس کن حد تک خرابیوں سے دوچار ہونے کے بعد کسی معاشرے کو دوبارہ ابھرنے کی تحریک ایسے ہی نہیں مل جاتی۔ جب کوئی بھی معاشرہ ہمہ گیر تباہی سے دوچار ہوتا ہے تب اُس کی اپنی صفوں میں سے کچھ لوگ ابھرتے ہیں۔ یہ لوگ کچھ نیا کرنے کا عزم رکھتے ہیں، بھرپور ولولے کے ساتھ آگے بڑھتے اور معاملات کو درست کرنے کے لیے اپنے وجود کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ تباہی سے دوچار معاشرے کے اہلِ علم اور اہلِ درد کچھ سوچتے ہیں، کچھ کر گزرنے کی ٹھانتے ہیں اور پھر آگے بڑھ کر مشکلات اور الجھنوں کو اُسی طرح پچھاڑتے ہیں جس طرح کسی بیل کو سینگوں سے پکڑ کر پچھاڑا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو نئی زندگی کی طرف لے جانے والے یہی اہلِ علم و اہلِ درد ہوتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر طبقے تبدیلی کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ اُن کی نظر صرف حال پر ہوتی ہے جبکہ اہلِ دانش مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ایک زمانے سے اہلِ پاکستان حقیقی تبدیلی کے لیے ترس رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی کہیں سے لاکر نصب کی جانے والی چیز نہیں۔ یہ تو عمل کا نام ہے۔ تبدیلی کا عمل شروع کرکے اُس میں پورے معاشرے کو شریک کیا جائے تو ہی بات بن پاتی ہے۔ یہ عمل خود بخود شروع نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگوں کو پوری شعوری کوشش کے ساتھ شروع کرنا پڑتا ہے۔ کوئی معاشرہ کیسا ہی گیا گزرا ہو، اُس میں بہت سے اہلِ علم و فن ایسے ہوتے ہیں جو دلِ درد مند رکھتے ہیں اور تعمیری سوچ کے ساتھ مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ان کی کاوشوں ہی سے حقیقی تبدیلی کا عمل شروع ہو پاتا ہے۔ یہ عمل تقویت اُسی صورت حاصل کرتا ہے جب باقی معاشرہ بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ساتھ دے۔ کوئی بھی معاشرہ حقیقی مثبت تبدیلیوں سے اُسی وقت ہم کنار ہوسکتا ہے جب ہر فرد اپنے حصے کا کام کرنے کا سوچے اور ایسا کر گزرے۔ قائدانہ کردار سب کا نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ معاشرے کو بدلنے میں دلچسپی نہ لی جائے۔ ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا پڑتا ہے۔ اِسی صورت معاشرے زوال کے گڑھے سے نکل کر دوبارہ جان پکڑتے ہیں اور کچھ نیا کر پاتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لیے جنہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے وہ مال و منال کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اہلِ علم و فن کو تبدیلی کے عمل میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور اِس وقت وہی اپنی ذمہ داری بھول کر دنیا پرستی کے مرض میں مبتلا ہیں۔ یہ روش معاشرے کے اجتماعی بحران کی شدت میں اضافہ کرتے ہوئے عام آدمی کے حصے کا کام بڑھا رہی ہے۔ اہلِ فکر و نظر اور اہلِ قلم کو اپنے حصے کا کام بھولنا نہیں چاہیے۔ اُنہیں نہ صرف یہ کہ جاگتے رہنا ہے بلکہ قوم کو بھی جگائے رکھنا ہے۔ اگر وہی سوئے رہے تو جاگ چکا معاشرہ !
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ کوئی معاشرہ گمراہی کے گڑھے میں گرا، تباہی سے دوچار ہوا اور پھر دوبارہ ابھرنے میں کامیاب ہوا۔ ایسا اُسی وقت ہوا جب اُس معاشرے نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا۔ واضح شعوری کوشش کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کسی بھی معاشرے کو بربادی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے کوئی اور معاشرہ آگے نہیں بڑھتا۔ یہ کام اُسے خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کو بھی ناکامی اور پریشانی کے گڑھے سے خود نکلنا ہے۔ ہم جن خرابیوں سے بری طرح دوچار ہیں اُنہیں دور کرنے کی سمت قدم ہمیں خود بڑھانا ہے۔ جنہیں فکر و نظر کی تھوڑی بہت گہرائی و گیرائی عطا ہوئی ہے اُنہیں اپنا فرض پہچاننا ہے۔ اساتذہ، مصنفین، شعرا، میڈیا نمائندگان اور دانشوروں کو اپنا فرض پوری دیانت اور جاں فشانی سے ادا کرنا ہے۔ محض باتیں کرنے سے کچھ نہ ہوگا۔ عمل کا وقت آچکا ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل! عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
وقت صرف اُس کا ہوتا ہے جو اُس کا احترام کرتا ہے۔ وقت کے ضیاع پر یقین رکھنے والوں کو اس بات پر بھی یقین رکھنا چاہیے کہ ایسا کرنے والوں کو وقت کبھی معاف نہیں کرتا اور تباہی کی راہ پر ڈال کر دم لیتا ہے۔ انتظار کی گھڑیاں خود بخود ختم نہیںہوتیں، ختم کرنا پڑتی ہیں۔ آج بے مثال ترقی سے ہم کنار ہر قوم نے صدیوں کی محنت شاقّہ کے بعد کچھ پایا ہے ۔ ہمارے لیے بھی بیدار ہونے اور احساسِ ذمہ داری کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ صرف محنت شاقّہ کا آپشن بچا ہے۔ اور تاخیر کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کا مرحلہ آچکا ہے۔ قدم نہ بڑھانے کا سوال ہی نہیں۔