گود اورگور ۔۔۔۔۔ محمد ناصر اقبال خان

پیپلزپارٹی کو اپنے قیام سے اب تک چار بار وفاق میں حکومت ملی ،اس جماعت کی قیادت کے نزدیک "جمہوریت بہترین انتقام ہے" ،میں بھی اس بات سے متفق ہوں کیونکہ عوام کئی دہائیوں سے اس نظام کے ہاتھوں انتقام کانشانہ بن رہے ہیں۔ہمارے ہاں رائج جمہوریت نے مٹھی بھرسیاستدانوں کوطاقتور بنادیا جبکہ ان کی کرپشن کے بوجھ سے ریاست اورمعیشت کمزور ہوتی چلی گئی ۔پاکستان میں چاربارآمریت آئی اورچاروں بار یہ جمہوریت آمریت کی "گود" یعنی "گور" میں بیٹھ گئی ۔جمہوریت کے علمبردار آمروں کے روبروسجدہ ریزاورمراعات سے مستفیدہوتے رہے ۔جمہوریت کے زیادہ ترمسیحا آمریت کی آغوش میں پرورش پاتے اورحق نمک اداکرتے رہے ہیں ۔ پاکستان میں آمریت اورجمہوریت کافرق صرف نام کی حدتک ہے ،حقیقت میںاندر سے دونوں نظام ایک طرح کام کرتے ہیں۔ پاکستان میںآج تک نحیف " جمہوریت "نے چاروں میں سے کسی ایک بھی آمریت" کو انتقام کیلئے نہیں للکارا ،ایوبی آمریت سے پرویزی آمریت تک ان میں سے کوئی ایک بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں آئی۔پاکستان کا عام آدمی تہتر برسوں بعد بھی جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہے اسلئے وہ جمہوریت اورآمریت میں فرق نہیںکرسکتا۔ہماری جمہوریت جس وقت تک جمہور کو ان کاجائزشیئر اورمقام نہیں دے گی ،وہ اس وقت تک ڈیلیور نہیں کرسکتی۔جس طرح انسان برف کھاتے ہیں اس طرح برف بھی بندے نگل جاتی ہے ، ایک طرف سفید برف نے ان گنت زندہ انسانوںکے خون سے پیاس بجھانے کیلئے انہیں ہڑپ کر لیا دوسری طرف آدم خورجمہوریت بھی اب تک متعدد سیاستدانوں ،امیدواروں جبکہ ہزاروں کارکنوں اور ووٹرز کونگل گئی ہے ۔ ہمارے ہاں انتخابات کشت وخون میں ڈوب جاتے ہیں۔ مادروطن کی مٹھی بھر سرمایہ دار اشرافیہ کے اشغال کیلئے "جمہوریت" کاوجودبچاتے بچاتے کئی "جمہور" زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ہر منتخب نمائندہ کئی ووٹرز کوروندتاہوا ایوان میں پہنچتا ہے ،سیاست کھیلنے والے کرداروں کوکئی بار ووٹرز کی زندگی سے کھیلتے ہوئے احساس ندامت تک نہیں ہوتا۔ اپنے ووٹ کی طاقت سے امیدوار کی ایوان میں رسائی یقینی بنانےوالے ووٹر پھر پانچ سال تک اس نمائندے سے اپنے حقوق کی بھیک مانگتے ہیں ۔میرے نزدیک جمہوریت وہ گدھ ہے جس کے "پنجے "بیگناہوں کے خون سے" تر" ہیں۔جمہوریت کے حامی یادرکھیں یہ طرز حکومت اسلامیت اورخلافت سے متصادم ہے ،جمہوریت میں خواتین وحضرات خود کو مختلف عہدوں کیلئے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرتے جبکہ" زر" اور"زور" کے بل پرکامیاب بھی ہوجاتے ہیں ،تاہم اسلام میں خودمنصب طلب یاحاصل کرناحلال اورجائز نہیں ۔اسلامی تعلیمات کی رو سے جو زیادہ متقی ، باکردار ،پرہیز گار اوربردبار ہواسے امیر چنا جائے گا جبکہ جمہوری نظام میں" امیر" منتخب ہونے کیلئے "امیر"ہوناضروری ہے۔ہماری انتخابی سیاست میں جوافرادجمہوریت کے پرچم تلے امیدواربنے ان کے بارے میں کئی شرمناک کہانیاں زبان زدعام ہیں۔پارٹی عہدوں اور پارٹی ٹکٹوں کی نیلامی کے ساتھ ساتھ انتخابی نظام کی ناکامی وبدنامی کے باوجود ہم جمہوریت سے جان چھڑانے اورصدارتی طرز حکومت آزمانے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔الیکشن کمشن کا این اے75کے ضمنی الیکشن میں اپنی بدترین ناکامی اوربدانتظامی کاملبہ چیف سیکرٹری پنجاب جوادرفیق ملک اورآئی جی پنجاب انعام غنی پرگرانا عجیب اور ناقابل فہم ہے ۔ پنجاب کے انتھک چیف سیکرٹری جوادرفیق ملک کی وفاداریاں اورتوانائیاں حکومت نہیں ریاست کیلئے ہیں ۔دیکھتے ہیں 18مارچ کو الیکشن کمشن شفاف اورپرامن الیکشن کے انعقاد کیلئے کیا انتظامات اوراقدامات کرتا ہے کیونکہ اس بارزیادہ شدت سے کشت وخون کاخطرہ ہے۔راقم کی ناقص رائے میں 18مارچ کے معرکے میں پی ٹی آئی کامیاب ہوگی جبکہ اپوزیشن کیمپ سے دھاندلی کاشورمچایاجائے گا ۔
ایک طرف مقروض ملک کاخطیر سرمایہ عام اورضمنی انتخابات کے انعقاد کیلئے جھونک دیاجاتا ہے جبکہ دوسری طرف مراعات کے نام پر منتخب اور غیر منتخب ارکان اسمبلی کی تجوریاں بھر دی جاتی ہیں جبکہ ہمارے کروڑوں ہم وطنوں کی جیب اوران کا پیٹ خالی ہے ۔سرکاری عہدوں کیلئے مقابلے کاامتحان دینا پڑتا ہے لیکن عوامی عہدوں پر انگوٹھا چھاپ بھی براجمان ہوجاتے ہیں،اس دوہرے معیار نے جمہورکوجمہوری نظام سے بیزارکردیاہے کیونکہ "ووٹوں "کی بنیاد پرایوانوں میں آنیوالے پھرآئندہ الیکشن تک" نوٹوں" کے پیچھے بھاگتے ہیں۔قومی سیاست میں"نوٹوں" کی بھرمار نے "لٹیروں" اور"لوٹوں" میں فرق مٹادیاہے۔اگرکسی پٹواری کیخلاف دس ہزاررشوت وصول کرنے کی تحریری شکایت آجائے تواس کیخلاف قانون ایکشن میں آجاتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں لیک ہونیوالی ویڈیومیں "وصولی "کرنیوالے ارکان اسمبلی کیخلاف متعلقہ ریاستی ادارے خاموش بلکہ مدہوش ہیں ۔سیاست میں خدمت کی نیت سے آنیوالے الٹا عوام کیلئے زحمت اوربوجھ بن جاتے ہیں۔ ووٹر کی مہر کے بل پر منتخب ہونیوالے بعد میں ووٹرز کے دستاویزات پرمہرتصدیق ثبت کرتے ہیں،عام آدمی کو شریک اقتدار کرنے کیلئے انتخابی نظام میں انقلابی تبدیلیاں کرناہوں گی۔سی ایس ایس کی طرح بلدیات اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کیلئے بھی مقابلے کاامتحان ناگزیرقراردیاجائے،پاکستان میں جو شخص سنتری یاپٹواری کے میرٹ پر پورا نہیں اترتا وہ بھی وزیراعظم بن جاتا ہے۔اس اقدام سے ملک وقوم کو انتخابات کے نام پر قومی وسائل کے ضیاع ، دھونس دھاندلی،کشت وخون ،سیاسی وفاداریوں کی نیلامی اوربدنامی سے نجات ملے گی ۔
جمہوریت کی رتھ پرسوار کئی بدزبان اوربدعنوان منتخب ایوان میں آتے رہے اوریہ طبقہ ہمارے محبوب پاکستان کونوچتا رہا۔ جمہوریت کیلئے عوام کواستعمال اوران کااستحصال کیاجاتا ہے،" ووٹ کو عزت دو"کے حامی ووٹرکوعزت کیوں نہیں دیتے۔ انتخابی مہم کے دوران جوووٹر متعدد امیدواروں کیلئے انتہائی "وی آئی پی" ہوتا ہے وہ نتیجہ آنے کے بعد اہم نہیں رہتا ۔جہا ں ووٹ نیلام ہوتے ہوں وہاں ووٹ یاووٹر کو خاک عزت ملے گی ۔عام آدمی کولگتا ہے ہمارے ملک میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ فروخت ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس حلقہ سے اس پارٹی کاووٹ بنک یعنی ہرایک ووٹر بکتا ہے ۔میں ناکام وبدنام جمہوریت نہیں بلکہ نیک نام" نظام خلافت" کا علمبردار ہوں ۔جمہوریت الہامی نظام نہیں لہٰذاءاسلامی فلاحی مملکت پاکستان کیلئے اس سے موثراور متبادل نظام پربات ہوسکتی ہے ۔
پاکستان کاہروہ سیاستدان جوجمہوریت کی صفات بیان کرتااوراپنے نجی مفادات کیلئے اس کے پیچھے چھپتا ہے اس کا اپنا رویہ اور مزاج ہرگز جمہوری نہیں ہوتا۔پاکستان کے اندر ہرعہد جمہوریت میں جمہور کے خواب چکناچورہوتے رہے۔جمہوریت کی نحوست سے ہمارا وفاق کمزورہوااور پاکستانیوں کے درمیان نفاق کی فصل کاشت ہوئی ۔جمہوری نظام نے 18ویں ترمیم کی صورت میں ریاست سے شدید انتقام لیا، تبدیلی سرکار میں دم ہے تواس ترمیم سے نجات کیلئے اپنا کلیدی کرداراداکرے ۔جس برمامیں بدنام زمانہ سوچی برانڈ جمہوریت میں روہنگیا مسلمان تختہ مشق بنے ہوئے تھے ،پچھلے دنوں وہاں فوجی ڈکٹیٹرشپ نے سوچی برانڈ جمہوریت کاتخت الٹادیا ہے۔ جس وقت برماکے اندر سوچی کے سیاہ دورمیں روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ اوربہیمانہ تشددکے ساتھ ساتھ ان کابدترین قتل عام ہورہا تھا اس وقت عالمی ضمیر کوانسانیت یاد نہیں آئی اوروہاں آمریت کاسورج سوانیزے پرآیا تونام نہاد مہذب ملکوں کوجمہوریت یادآگئی اوراب وہ اس درندہ صفت سوچی کی رہائی پرزور دے رہے ہیں جس کاعالمی عدالت انصاف میں ٹرائل ناگزیر ہے،منافقت کی انتہا دیکھیں مسلمانوں کی قاتل سوچی کے ہمدرد عالمی ضمیر کوبرمامیں مسلمان اسیران کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔میرے نزدیک اسلامیت اورانسانیت نام نہاد جمہوریت سے مقدم ہے،برما،بھارت اوراسرائیل سمیت جہاں بھی انسانیت ایڑیاں رگڑرہی ہے وہاںجمہوریت بھاڑمیں جائے ۔جہاں اقلیت کوانصاف نہ ملے وہاں جمہوریت کوسمندر بردکردیاجائے ۔پاکستان میں بھی سیاستدانوں ا ورسیاسی اداروں میں جمہوریت اورانصاف نہیں توملک میں ترقی اورتبدیلی کہاں سے آئے گی۔زیادہ تر سیاستدانوں اورسیاسی پارٹیوں کاطرز سیاست جمہوری اقدار سے متصاد م ہے۔جمہوریت کے علمبردار بھی اندر سے آمر ہیں ۔ زیادہ تر سیاسی ومذہبی پارٹیوں کے اندرمحض رسمی کارروائی کے طورپر انٹراپارٹی الیکشن کا ڈھونگ رچایاجاتا ہے اسلئے مسلسل کئی دہائیوں سے ان کی قیادت تبدیل نہیں ہوتی ۔صرف آمریت نہیں ہمارے ہاں جمہوریت بھی آدم خور اورآدم بیزار ہے، نام نہادجمہوریت ہرانتخابات میں کئی "جمہور" ڈکار جاتی ہے ۔سیاسی ومذہبی پارٹیوں کی طرف سے عام اوربلدیاتی انتخابات میں دھونس دھاندلی کا بھرپور استعمال کیاجاتا ہے، امیدوار اور ان کے حامی ہرطرح اورہرسطح کی رگنگ میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہرالیکشن میں ہارنے والی پارٹیاں یک زبان ہوکر دھاندلی کاشورمچاتی ہیں۔پی ڈی ایم میں موجودپارٹیوں نے 2018ءکے عام انتخابات میںایک دوسرے کوشکست دی لیکن وہ بھی انتخابی نتائج تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔حالیہ ضمنی الیکشن میں نوشہرہ سے مسلم لیگ (ن) کاامیدوارکامیاب قرارپایا جبکہ ڈسکہ میں ری پولنگ کااعلان کردیاگیا ہے تاہم نوشہرہ سے کامیابی کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے حکمران جماعت کیخلاف بلیم گیم شروع کردی اوربیچاری تبدیلی سرکار بھی دھاندلی کاشورمچانے پرمجبور ہے ۔پی ٹی آئی کے بزداروں اور اناڑیوں کوڈھنگ سے دھاندلی کرنے کاہنر بھی نہیں آتا۔