نا شکری ۔۔۔۔۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر
اگر انسان اپنے گردوپیش پر نظر ڈالے تو اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی صحت اور عافیت یقینا بہت بڑی نعمت ہیں۔ اسی طرح نیک شریکِ زندگی، اولاد، والدین، بہن بھائی اور محبت کرنے والے اعزہ واقارب کا وجود بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اچھا روزگار اور معاشی کشادگی بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت ہے۔ ان تمام نعمتوں کے باوجود دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتی رہتی ہے۔اچھے خاصے صحت مند اور خوشحال لوگ بھی مختلف مواقع اور مجلس میں اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا اور کبھی تقدیر کا گلہ کیا جاتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی اَنگنت نعمتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کو اپنی بے پایاں نعمتوں کا احساس دلایا ہے اور قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اپنی بے پایاں نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ خصوصاً سورہ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو عطا کی جانے والی بہت سی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہیں جن میںدودھ، شہد، پانی سے نکلنے والی مچھلیاں، انسان کی بیوی، اس کی اولاد، اس کا گھر اور اس کی اقامت گاہیں شامل ہیں۔ ان نعمتوں کو یاد کرانے کا مقصد جہاں پر انسانوں کو اپنی نشانیوں سے آگاہ کرنا ہے وہیں پر ان کو شکر گزاری کی ترغیب دلانا بھی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں کے حصول کے باوجود بالعموم ناشکری کو اختیار کرتا ہے۔ پروردگار عالم نے اپنے کلام حمید میں اپنی نعمتوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ناشکری کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اُس نے دی تمہیں ہر چیز‘ جو تم نے مانگی‘ اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمت کو (تو) نہیں شمار کر سکو گے اُسے‘ انسان یقینا بڑا ظالم، بہت ناشکرا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ رحمن میں تکرار کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں: ''تو اپنے رب کی کون (کون) سی نعمتوں کو تم دونوں جھٹلاؤ گے (جن وانس)‘‘۔ اسی طرح سورہ عادیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ بہت سی قسمیں کھانے کے بعد انسان کی ناشکری کا ذکر کرتے ہیں۔سورہ عادیات کی آیت نمبر1سے6 میں ارشاد ہوا: ''قسم ہے دوڑنے والے (گھوڑوں کی) ہانپتے ہوئے، پھر آگ نکالنے والوں کی‘ سم مار کر۔ پھر حملہ کرنے والوں کی صبح کے وقت۔ پھر وہ اڑاتے ہیں اس وقت غبار۔ پھر جا گھستے ہیں اس وقت (دشمن کی) کسی جماعت میں۔ بے شک انسان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر انسان کی ناشکری کا ذکر کیا ہے وہیں پر قرآن مجید میں ناشکری کے نقصانات کو بھی واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں فرماتے ہیں: ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کروگے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے‘‘۔ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انفرادی سطح پر نا شکری کی صورت میں اپنے عذاب اور گرفت کا ذکر کیا وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اجتماعی حوالوں سے بھی ناشکری کے انجام کوبڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کرتے ہیں جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے امن، اطمینان اور رزق کی نعمتوں سے نوازا تھا لیکن جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن سے ان نعمتوں کو چھین لیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی‘ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قوم سبا کی نعمتوں کے چھن جانے کا بھی ذکر کیا اس لیے کہ انہوں نے ناشکری کے راستے کو اختیار کر لیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سبا کی آیت نمبر 15سے 17میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلا شبہ یقینا (قومِ) سبا کے لیے تھی اُن کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی دوباغ دائیں اور بائیں جانب (تھے) (ہم نے انہیں حکم دیا تھا) کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اُس کا شکر ادا کرو‘ (یہ) پاکیزہ شہر ہے اور(وہ) بہت بخشنے والا رب ہے۔ پھر اُنہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھیجا اُن پر زور کا سیلاب اور ہم نے اُن کو بدلے میں دیے اُن کے دوباغوں کے عوض میں (اور) دو باغ بدمزہ میوے والے اور جھاؤ کے درختوں والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔ یہ ہم نے بدلا دیا اُنہیں اس وجہ سے جو انہوں نے کفر کیا اور نہیں ہم سزا دیتے مگر اُسے جو بہت ناشکرا ہو‘‘۔ کفر اور ناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر جو گرفت فرمائی اس کا مزید ذکر سورہ سبا کی آیت نمبر 18سے 19میں یوں ہوا: ''اور ہم نے بنا دیں (یعنی آباد رکھیں) اُن کے درمیان اور (شام کی اُن ) بستیوں کے درمیان جہاں ہم نے برکت کی تھی‘ کچھ بستیاں ( جو) سامنے نظر آنے والی تھیں اور ہم نے مقرر کر دی تھی (منزلیں) اُن میں چلنے کی (ہم نے کہا) چلو اُن میں راتوں اور دنوں کو امن سے۔ پس اُنہوں نے کہا: اے ہمارے رب تو دوری پیدا کر دے ہمارے سفروں کے درمیان۔ اور اُنہوں نے ظلم کیا اپنی جانوں پر تو ہم نے بنا دیا اُنہیں (عبرت کی)کہانیاں اور ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اُنہیں، بلاشبہ اس میں یقینا نشانیاں ہیں ہر بہت صبرکرنے والے (اور)بہت شکر کرنے والے کے لیے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ناشکری کے نتیجے میں نعمتیں چھن جاتی ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی وارد ہوتی ہے۔ مشاہدے سے یہ بات واضح ہوتی ہے ہر انسان امن اور سکون کا طلبگار ہے لیکن اس کے بوجوہ انسانوں کی بڑی تعداد بے سکونی، بدامنی، ذہنی خلفشار اور دباؤ کا شکار رہتی ہے۔ مذکورہ بالا آیات سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی پریشانیوں کے متعدد اسباب میں سے ایک بڑا سبب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے؛ چنانچہ انسان کو ہر لمحہ ناشکری سے بچنا چاہیے اور شکر گزاری کے راستے پر گامزن رہنا چاہیے۔
ناشکری کی سنگینی کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ نا شکری کے تین درجات ہیں۔1۔ دل سے کسی نعمت کا انکار کرنا، 2۔زبان سے ناشکری والے الفاظ ادا کرنا۔ 3۔ اپنے اعمال سے ناشکری کااظہارکرنا۔
اسی طرح شکر گزاری کے بھی درجات ہیں 1۔ دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور شکرکرنا،2۔ زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احسانات کا شکر اور اس کی تعریف کرنا۔3۔ اپنے عمل سے نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا۔
بہت سے لوگ عمل سے نا شکری کرنے کو ناشکری نہیں سمجھتے‘ ان کا خیال ہے کہ زبان سے شکر ادا کرنا ہی کافی ہے جبکہ نعمتوں کے ملنے پرعمل سے شکر ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کی ایک مثال یوں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے مال کوبے جا ضائع کرنے والوں کی اسی لیے مذمت کی ہے کہ وہ اپنے عمل سے ناشکری کااظہار کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 27میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور ہے شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا‘‘۔ چنانچہ انسان کو اپنی زبان اور دل‘ دونوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال سے بھی ناشکری والے عناصر کو باہر نکال دینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجیدمیں اس حقیقت کو واضح فرماتے ہیں کہ وہ ایمان اور شکر کے راستے پر چلنے والوں پر گرفت نہیں فرماتا۔ سورہ نسا کی آیت نمبر 147 میں ارشاد ہوا: ''کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر کرو اور (صحیح طور پر) ایمان لے آؤ اور اللہ قدردان خوب علم رکھنے والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں سے تسلسل سے بہرہ ورہونے کے لیے ناشکری کے بجائے شکرگزاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر اپنی بے پایاں نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین !