تو پھر یہ لیجیے .... محمد اظہار الحق
*باباجی کب سے بھرے ہوئے تھے کبھی پی ٹی آئی کے دن رات کلابے ملاتے تھے اس کالم میں تو (حد نالوں ودھ ) کر دی ہے*

کچھ قارئین نے شکوہ کیا ہے کہ روتے دھوتے ہی رہتے ہو، کبھی کوئی خوش ہونے والی بات بھی لکھ دیا کرو۔ سو، آج ایک روح افزا قسم کا کالم پیش خدمت ہے۔
ڈسکہ میں اول تو کچھ ہوا ہی نہیں، اور اگر کچھ ہوا ہے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ اور یہ ہوائی تو کسی دشمن نے اڑائی ہے کہ حکومت الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ حکومت کا وعدہ تھا کہ اداروں کو مضبوط کرے گی۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو رہا ہے تو یہ تو حکومت کی کامیابی ہے۔ سہرا تو اسی حکومت کے سر ہی بندھے گا کہ اس کے زمانے میں الیکشن کمیشن نے اتنا جرأت مندانہ فیصلہ کیا اور حزب اقتدار نے اس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کر لیا۔ یوں بھی موجودہ حکومت کے تھیلے میں کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ کون سا وعدہ ہے جو اس نے پورا نہیں کیا۔ حسب وعدہ کابینہ کی تعداد سترہ سے اوپر نہیں ہونے دی گئی۔ وزیر اعظم نے اپنے کسی دوست کو اقتدار کے نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ ملک کے ذہین ترین، قابل ترین، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے عہد کیا تھا، پی ٹی وی کا ماہانہ ٹیکس، جو بجلی کے بلوں کے ذریعے، عوام سے اینٹھا جاتا تھا اور جو سالانہ اربوں تک پہنچتا تھا، ختم کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جو سلوک اس حکومت نے کیا ہے، تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ آتے ہی اسے چلتا کیا۔ دوسرے ترقی پذیر، مقروض، ملکوں کو چاہیے کہ ہماری تقلید کریں۔
یہ خوش خبریاں تو حکومتی حوالے سے تھیں۔ معاشرتی اعتبار سے بھی ہم اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ قوموں کی برادری میں ہمارا نام اب احترام سے لیا جاتا ہے۔ ہم پاکستانی سچ بولنے میں سر فہرست ہیں۔ وعدہ خلافی کی وبا، الحمدللہ ہم میں نہیں پائی جاتی۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی پاکستانی کسی فنکشن میں تاخیر سے پہنچا ہو۔ جتنی تقاریب ہوتی ہیں، ان میں پاکستانیوں کی آمد دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر، ہمارے افسر، ہمارے ورکر، اپنی اپنی ڈیوٹی پر بر وقت حاضر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے محترم وزیر اعظم بھی! اِدھر قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتا ہے، اُدھر وزیر اعظم اجلاس میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے تاجر تابندہ ستاروں کی طرح ہیں۔ توانائی بچانے کے لیے، صبح نو بجے دکانیں کھول لیتے ہیں۔ ٹھیک غروبِ آفتاب کے وقت بازار بند ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ری فنڈ پالیسی ہمارے تاجروں کی بے مثال ہے۔ آپ چھ ماہ بعد بھی خراب مال لے کر دکان دار کے پاس واپس جائیں، خندہ پیشانی کے ساتھ، بسم اللہ بسم اللہ کہہ کر رقم آپ کو واپس کر دے گا۔ پاکستان میں یہ مکروہ فقرہ آپ کو کسی دکان پر لکھا ہوا نظر نہیں آئے گا کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ صرف یہی نہیں ہمارے تاجر ٹیکس بچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، ہر گاہک کو رسید دیتے ہیں۔ شے بیچتے وقت شے کا نقص ضرور بتاتے ہیں‘ اور کیا مجال جو فٹ پاتھ پر، یا سامنے والی جگہ پر، ناجائز قبضہ کریں۔ اسی لیے ناروا تجاوزات کی بیماری سے ہمارے شہر اور قصبے محفوظ ہیں۔ صرف تاجر برادری ہی نہیں، ہمارے سماج کے تمام طبقات اخلاقی لحاظ سے قابل رشک رویہ رکھتے ہیں۔ صفائی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی شہر میں چلے جائیے، کاغذ کا ٹکڑا اور گھاس کا تنکا تک نہیں دکھائی دے گا۔ چلتی ہوئی قیمتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے، چپس کے خالی پیکٹ اور جوس کے خالی ڈبے باہر نہیں پھینکے جاتے۔ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور سگریٹ سلگا کر دیا سلائی باہر سڑک پر پھینکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ جو مشہور ہے کہ انگریز ایک بھی ہو تو قطار بنا کر کھڑا ہوتا ہے تو اصل میں یہ کہاوت ہم پاکستانیوں کے بارے میں تھی۔ انگریزوں نے ہماری نقل اتارتے ہوئے قطار بندی کا اصول اپنایا اور امتدادِ زمانہ سے یہ محاورہ ان پر چسپاں کر دیا گیا۔
بہت سی معاشرتی برائیاں جو مغربی اقوام میں عام ہیں ہمارے ہاں نہیں پائی جاتیں۔ یہ جو امریکہ اور یورپ میں بیٹی کی پیدائش کا سن کر موت پڑ جاتی ہے، اور عورتوں کو اس جرم میں گھر سے نکال دیا جاتا ہے یا مارا پیٹا جاتا ہے، تو ہمارے ہاں ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ سنا ہے کاروکاری، ونی اور سوارہ جیسے پتھر کے زمانے کے رواج یورپ میں آج بھی پائے جاتے ہیں۔ پنچایتیں چھوٹی چھوٹی بچیوں کی شادیاں بوڑھے مردوں سے کرنے کا حکم دیتی ہیں یا عورتوں کو قتل کرا دیتی ہیں تو یہ سارے قابل نفرت اور قابل نفرین دھندے پاکستان میں نہیں چلتے۔ ہمارے ہاں تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اپنی پسند سے شادی کرنے کا جو حق مذہب نے عورت اور مرد دونوں کو دیا ہے، اس کی خلاف ورزی کی جائے۔ جہیز کی رسم کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ وہ زمانے گئے جب ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں لڑکیوں کے بالوں میں چاندی چمکنے لگتی تھی۔ غیرت کے نام پر قتل کی ہولناک اور سفاک رسم ختم ہو چکی ہے۔
ہمارے وکیل قانون کے رکھوالے ہیں۔ ججوں کا احترام کرتے ہیں۔ وکیلوں کی جتھہ بندی ہمارے ہاں بالکل نہیں پائی جاتی۔ کچھ عرصہ ہوا ہمارے وکیل بھائی ایک ہسپتال میں گئے اور مریضوں اور ڈاکٹروں کی خدمت میں پھول اور تحائف پیش کیے۔ پولیس ہماری مثالی ہے۔ غریب سے غریب آدمی تھانے جائے تو اس کی درخواست پر ایف آئی آر، ایک لمحہ تاخیر کے بغیر، درج کر لی جاتی ہے۔ جب تک چوری برآمد نہ ہو جائے یا قاتل پکڑا نہ جائے، ہماری پولیس اپنے اوپر آرام حرام کر لیتی ہے۔ تھانوں کے پاس سے گزرتے وقت لوگ تھانوں کی دیواروں کو چومتے ہیں اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر پولیس کو دعائیں دیتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ہماری پولیس سیاسی مداخلت سے پاک ہے۔ حکومت سوچ بھی نہیں سکتی کہ پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر سکے۔ یہی حال ڈاکٹروں کا ہے۔ انسانیت کا درد ان کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صبح ساڑھے سات بجے ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ انسان نما فرشتے اپنے نجی کلینکس کو آباد کرنے کے لیے ہسپتال آئے ہوئے مریضوں کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے‘ اور پرائیویٹ کلینک میں پریکٹس کریں بھی تو بہت معمولی فیس لے کر خدمت خلق کا مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ نرسوں کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔ دوائیں ہمارے ملک میں سستی ہیں اور عوام کی دسترس میں ہیں۔ اتائیوں کے خلاف سخت قوانین ہیں۔
رہے سیاست دان تو دیانت، صداقت اور امانت ان پر ختم ہے۔ اکثر غریب ہیں۔ سادہ لباس پہنتے ہیں۔ عام بسوں اور ٹرینوں میں عوام کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ وزیر بن کر بھی پروٹوکول سے احتراز کرتے ہیں۔ بہت سے تو سائیکلوں پر سوار ہو کر اپنے دفتروں میں آتے ہیں۔ عام محلوں میں چھوٹے چھوٹے سادہ گھروں میں رہتے ہیں۔ غلط کام کے لیے کسی ووٹر کی سفارش نہیں کرتے۔ اکثر سیاست دانوں کے بچے عام ملازمتیں کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ غرض ہمارا ملک ایک مثالی ملک ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کرنا، ہر امریکی، جاپانی اور یورپین کا خواب ہے۔ یہ اور بات کہ ہماری حکومت نے اس ضمن میں قوانین سخت بنا رکھے ہیں ورنہ دنیا بھر سے آنے والے آبادکار ہم پاکستانیوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیں!
قارئین کی خدمت میں گزارش ہے کہ، اس کالم سمیت، کالم نگار کے گناہوں کی معافی کے لیے دعا کر دیں۔