عبث
مرا گھر اجنبی لگتا ہے کیوں آخر
وہ راہیں بھی
جو گھر تک لے کے جاتی ہیں
کبھی تھیں آشنا مجھ سے
مگر نا آشنا اب ہیں
بہت مایوس ہوں سب سے
مجھے پہچاننے والا
نہیں کوئی
کوئی رشتہ بھی اب اپنا نہیں لگتا
یہاں کی ریشمی صبحیں
اجالے اپنے آنگن کے
اداسی سے بھری شامیں
چمکتے رات کے تارے
سبھی یہ مجھ سے کہتے ہیں
کہ اب کے جب سفر کرنا
جہاں جانا
وہیں رہنا
عبث ہے اس جگہ آنا
عبث ہے لوٹ کر آنا
عادل حیات