Results 1 to 2 of 2

Thread: رواداری ۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam رواداری ۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

    رواداری ۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

    Rawadari.jpg
    رواداری‘‘ Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں Ú©Û’ عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان Ú©Ùˆ ہم برداشت کریں، ان Ú©Û’ جذبات کا Ù„Ø+اظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان Ú©Ùˆ رنج پہنچانے والی ہو، اور انہیں ان Ú©Û’ اعتقاد سے پھیرنے یا ان Ú©Û’ عمل سے روکنے کیلئے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں ’’ خدا Ú©Û’ نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹ پر گواہ نہیں بنتےاور جب کسی نامناسب فعل Ú©Û’ پاس سے گزرتے ہیں تو خودداری Ú©Û’ ساتھ گزر جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان )
    اگر ایک ہی Ø´Û’ Ú©Ùˆ ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں معاً سچے ہوں۔ اگر ایک ہی فعل Ú©Ùˆ ایک بُرا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا Ø+Ú©Ù… دیتا ہے تو کسی طرØ+ ممکن نہیں کہ دونوں Ú©ÛŒ رائے صØ+ÛŒØ+ ہو، دونوں برØ+Ù‚ ہوں اور دونوں امر Ùˆ نہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے Ú©Û’ باوجود اپنے Ø+Ú©Ù… میں درست ہوں۔ جو شخص ایسے متضاد اقوال Ú©ÛŒ تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد اØ+کام Ú©Ùˆ برØ+Ù‚ قرار دیتا ہے اس کا یہ فعل دو Ø+ال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب Ú©Ùˆ خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس Ù†Û’ اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے رائے ظاہر کر دی۔ بہرØ+ال دونوں صورتیں عقل اور صداقت Ú©Û’ خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور Ø+Ù‚ پسند انسان کیلئے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیال لوگوں Ú©ÛŒ تصدیق کرے۔

    عموماً لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں Ú©Û’ مختلف اور متضاد خیالات Ú©Ùˆ درست قرار دینا ’’رواداری‘‘ ہے۔ Ø+الانکہ یہ دراصل ’’رواداری‘‘ نہیں، عین منافقت ہے۔’ ’رواداری‘‘ Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں Ú©Û’ عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان Ú©Ùˆ ہم برداشت کریں، ان Ú©Û’ جذبات کا Ù„Ø+اظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریں جو ان Ú©Ùˆ رنج پہنچانے والی ہو، اور انہیں ان Ú©Û’ اعتقاد سے پھیرنے یا ان Ú©Û’ عمل سے روکنے کیلئے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تØ+مل اور اس طریقے سے لوگوں Ú©Ùˆ اعتقاد Ùˆ عمل Ú©ÛŒ آزادی دینا نہ صرف ایک مستØ+سن فعل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی Ú©Ùˆ برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم خود ایک عقیدہ رکھنے Ú©Û’ باوجود Ù…Ø+ض دوسرے لوگوں Ú©Ùˆ خوش کرنے کیلئے ان Ú©Û’ مختلف عقائد Ú©ÛŒ تصدیق کریں، اور خود ایک دستور العمل Ú©Û’ پیرو ہوتے ہوئے دوسرے مختلف دستوروں کا اتباع کرنے والوں سے کہیں کہ ’’آپ سب Ø+ضرات برØ+Ù‚ ہیں‘‘تو اس منافقانہ اظہار رائے Ú©Ùˆ کسی طرØ+’’رواداری⠘‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ مصلØ+تاً سکوت اختیار کرنے اور عمداً جھوٹ بولنے میں آخر Ú©Ú†Ú¾ تو فرق ہونا چاہیے۔

    صØ+ÛŒØ+ رواداری وہ ہے جس Ú©ÛŒ تعلیم اسلام Ù†Û’ ہم Ú©Ùˆ دی ہے۔ ہم سے کہا گیا ہے کہ: ترجمہ ’’ یہ لوگ خدا Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر جن دوسرے معبودوں Ú©Ùˆ پکارتے ہیں ان Ú©Ùˆ برا نہ کہو۔۔ ہم Ù†Û’ تو اسی طرØ+ ہر قوم کیلئے اس Ú©Û’ اپنے عمل Ú©Ùˆ خوشنما بنا دیا ہے پھر ان سب Ú©Ùˆ اپنے پروردگار Ú©ÛŒ طرف واپس جانا ہے۔ وہاں ان کا پروردگار انہیں بتا دے گا کہ انہوں Ù†Û’ کیسے عمل کیے ہیں۔‘‘ (انعام6:108)

    Ù+Ù€:ترجمہ ’’ خدا Ú©Û’ نیک بندے وہ ہیں جو جھوٹ پر گواہ نہیں بنتے۔اور جب کسی نامناسب فعل Ú©Û’ پاس سے گزرتے ہیں تو خودداری Ú©Û’ ساتھ گزر جاتے ہیں۔‘‘ (الفرقان 25:72)

    Ù+Ù€:ترجمہ ’’ اے Ù…Ø+مد(ï·º)! ان سے کہہ دو کہ ’’اے کافرو! نہ میں ان معبودوں Ú©Ùˆ پوجتا ہوں جن Ú©Ùˆ تم پوجتے ہو اور نہ تم اس معبود Ú©Ùˆ پوجنے والے ہو جس Ú©Ùˆ میں پوجتا ہوں۔ اور آئندہ بھی نہ میں ان معبودوں Ú©Ùˆ پوجنے والا ہوں جن Ú©Ùˆ تم Ù†Û’ پوجا ہے اور نہ تم اس معبود Ú©Ùˆ پوجنے والے ہو جس Ú©Ùˆ میں پوجتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘(الکٰفر٠ˆÙ†109:1-6)

    Ù+Ù€:ترجمہ :’’دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‘‘ (البقر ہ2:256)

    Ù+Ù€:ترجمہ :’’ اوربدی Ú©Ùˆ نیکی سے دفع کرتے ہیں اور جو Ú©Ú†Ú¾ ہم Ù†Û’ رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب کوئی نامناسب بات سنتے ہیں تو اس سے درگزر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ تم Ú©Ùˆ سلام ہے، ہم جاہلوں سے Ú©Ú†Ú¾ غرض نہیں رکھتے۔‘‘ (القصص28: 54-55)

    Ù+Ù€:ترجمہ ــ:’’ پس، تم ان Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ Ú©ÛŒ دعوت دو اور اپنے مسلک پر جمے رہو جیسا کہ تم Ú©Ùˆ Ø+Ú©Ù… دیا گیا ہے اور ان Ú©ÛŒ خواہشات Ú©ÛŒ ہرگز پیروی نہ کرو اور کہو کہ ’’ اللہ Ù†Û’ جو کتاب اتاری ہے اس پر میں ایمان لایا ہوں اور مجھے Ø+Ú©Ù… دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی Ø+جت نہیں۔ اللہ ہم سب Ú©Ùˆ قیامت میں جمع کرے گا اور اسی Ú©ÛŒ طرف واپس جانا ہے۔‘‘ (الشوریٰ 42:15)

    Ù+Ù€:ترجمہ ’’ اپنے ربّ Ú©Û’ راستے Ú©ÛŒ طرف Ø+کمت اور عمدہ پند Ùˆ نصیØ+ت Ú©Û’ ساتھ بلائو اور ان Ú©Û’ ساتھ اچھے طریقے سے مباØ+ثہ کرو۔‘‘ (النØ+Ù„ 16:125)

    یہی وہ’’رواداری‘ €˜ ہے جو ایک Ø+Ù‚ پرست، صداقت پسند اور سلیم الطبع انسان اختیار کرسکتا ہے اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار Ùˆ اعلان کرے گا، دوسروں Ú©Ùˆ اس عقیدے Ú©ÛŒ طرف دعوت بھی دیگا، مگر کسی Ú©ÛŒ دل آزاری نہ کرے گا، کسی سے بدکلامی نہ کرے گا، کسی Ú©Û’ معتقدات پر Ø+ملہ نہ کرے گا، کسی Ú©ÛŒ عبادات اور اعمال میں مزاØ+مت نہ کرے گا، کسی Ú©Ùˆ زبردستی اپنے مسلک پر لانے Ú©ÛŒ کوشش نہ کرے گا۔ باقی رہا Ø+Ù‚ Ú©Ùˆ Ø+Ù‚ جانتے ہوئے Ø+Ù‚ نہ کہنا، یا باطل Ú©Ùˆ باطل سمجھتے ہوئے Ø+Ù‚ کہہ دینا، تو یہ ہرگز کسی سچے انسان کا فعل نہیں ہوسکتا۔ اور خصوصاً لوگوں Ú©Ùˆ خوش کرنے کیلئے ایسا کرنا تو نہایت مکروہ قسم Ú©ÛŒ خوشامد ہے۔ ایسی خوشامد نہ صرف اخلاقی Ø+یثیت سے ذلیل ہے بلکہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوتی جس کیلئے انسان اپنے آپ Ú©Ùˆ اس پست منزل تک گراتا ہے۔ قرآن کا صاف اور سچا فیصلہ ہے کہ:

    Ù+Ù€:ترجمہ : ’’ یہود اور نصاریٰ تجھ سے ہرگز راضی نہ ہوں Ú¯Û’ جب تک کہ تو ان Ú©ÛŒ ملت کا پیرو نہ بن جائے گا۔ صاف کہہ دے کہ اللہ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے، ورنہ اگر تو Ù†Û’ اس علم Ú©Û’ بعد جو تیرے پاس آیا ہے ان Ú©ÛŒ خواہشات Ú©ÛŒ پیروی کی، تو کوئی Ø+امی Ùˆ مددگار تجھ Ú©Ùˆ خدا سے بچانے والا نہ ہوگا۔‘‘(Ø§Ù„Ø¨Ù‚Ø±Û 2:120)

    ’’جھوٹی رواداری‘‘ کا اظہار تو خیر سیاسی اغراض کیلئے کیا جاتا ہے اور اس دَور میں یہ’’جائز‘‘ ہے۔ کیونکہ مغربی ارباب ریاست Ú©ÛŒ کوششوں سے مدت ہوئی کہ اخلاق اور سیاست Ú©Û’ درمیان مفارقت کرا دی گئی ہے۔ لیکن افسوس Ú©Û’ قابل ان ’’مØ+ققین‘‘ کا Ø+ال ہے، جو عقل Ú©Ùˆ سوچنے اور فکر Ú©Ùˆ Ø+رکت کرنے Ú©ÛŒ زØ+مت دیئے بغیر اپنی مذہبی تØ+قیقات کا یہ عجیب نظریہ ظاہر فرمایا کرتے ہیں کہ ’’تمام مذاہب برØ+Ù‚ ہیں‘‘۔ یہ جملہ اکثر ان لوگوں Ú©ÛŒ زبان سے سنا جاتا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ’’ ہم کوئی بات زبان سے نہیں نکالتے اور نہ تسلیم کرتے ہیں جب تک کہ اس Ú©Ùˆ میزانِ عقل میں تول نہ لیں‘‘۔ جن مختلف مذاہب Ú©Ùˆ معاً برØ+Ù‚ ہونے Ú©ÛŒ سند عطا Ú©ÛŒ جاتی ہے، ان Ú©Û’ اصول میں سیاہ اور سفید کا کھلا ہوا فرق موجود ہے۔ ایک کہتا ہے کہ’’خدا ایک ہے‘‘۔ دوسرا کہتا ہے’’دو ہیں‘‘۔ تیسرا کہتا ہے’’ تین ہیں‘‘۔ چوتھا کہتا ہے’’بہت سی قوتیں خدائی میں شریک ہیں‘‘۔ پانچویں Ú©ÛŒ تعلیم میں سرے سے خدا کا تصور ہی موجود نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پانچوں سچے ہوں؟

    ایک انسان Ú©Ùˆ خدائی Ú©Û’ مقام میں Ù„Û’ جاتا ہے۔ دوسرا خدا Ú©Ùˆ کھینچ کر انسانوں Ú©Û’ بیچ میں اتار لاتا ہے۔ تیسرا انسان Ú©Ùˆ عبد اور خدا Ú©Ùˆ معبود قرار دیتا ہے۔ چوتھا عبد اور معبود دونوں Ú©Û’ تخیل سے خالی ہے۔ کیا صداقت میں ان چاروں کیلئے اجتماع Ú©ÛŒ گنجائش Ù†Ú©Ù„ سکتی ہے؟ ایک نجات Ú©Ùˆ صرف عمل پر موقوف رکھتا ہے۔ دوسرا نجات کیلئے صرف ایمان Ú©Ùˆ کافی سمجھتا ہے۔ تیسرا ایمان اور عمل دونوں Ú©Ùˆ نجات Ú©Û’ لیے شرط قرار دیتا ہے۔ کیا یہ تینوں بیک وقت صØ+ÛŒØ+ ہوسکتے ہیں؟ ایک نجات Ú©ÛŒ راہ دنیا اور اس Ú©ÛŒ زندگی سے باہر نکالتا ہے۔ دوسرے Ú©Û’ نزدیک نجات کا راستہ دنیا اور اس Ú©ÛŒ زندگی Ú©Û’ اندر سے گزرتا ہے۔ کیا یہ دونوں راستے یکساں درست ہوسکتے ہیں؟ ایسے متضاد امور Ú©Ùˆ صداقت Ú©ÛŒ سند عطا کرنے والی Ø´Û’ کا نام اگر عقل ہے تو پھر جمع بین الاضداد Ú©Ùˆ Ù…Ø+ال قرار دینے والی Ø´Û’ کا نام Ú©Ú†Ú¾ اور ہونا چاہیے۔

    مذاہب میں جو تصورات مشترک نظر آتے ہیں، افسوس ہے کہ سطØ+ÛŒ نظر رکھنے والے ان Ú©ÛŒ Ø+قیقت تک پہنچنے Ú©ÛŒ کوشش نہیں کرتے اور Ù…Ø+ض سطØ+ پر نگاہ ڈال کر چند غلط مقدمات Ú©Ùˆ غلط طریقے سے ترتیب دے کر غلط نتائج نکال لیتے ہیں۔ Ø+الانکہ دراصل یہ اشتراک ایک اہم Ø+قیقت Ú©ÛŒ طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ پتہ دیتا ہے کہ درØ+قیقت یہ تمام مذاہب ایک ہی اصل سے Ù†Ú©Ù„Û’ ہیں۔ ان تمام تصورات اور تعلیمات کا مبدأ ایک ہے۔ کوئی ایک ذریعۂ علم ہے جس Ù†Û’ انسان Ú©Ùˆ مختلف ممالک، مختلف اوقات اور مختلف زبانوں میں، ان مشترک صداقتوں سے روشناس کیا۔ کوئی ایک بصیرت ہے اور اس بصیرت سے وہ سب Ú©Û’ سب ایک ہی قسم Ú©Û’ نتائج تک پہنچے۔ لیکن مذاہب جب اپنی اصل اور اپنے مبدأ سے دور ہوگئے تو ان میں Ú©Ú†Ú¾ خارجی تصورات اور اجنبی معتقدات Ùˆ تعلیمات Ù†Û’ راہ پالی، اور چونکہ یہ بعد والی چیزیں اس مشترک مبدأاور مشترک بصیرت سے ماخوذ نہ تھیں، بلکہ مختلف طبائع، مختلف رجØ+انات اور مختلف علمی Ùˆ عقلی مراتب رکھنے والے انسانوں Ú©ÛŒ طبع زاد تھیں، اس لیے انہوں Ù†Û’ ان مشترک بنیادوں پر جو عمارتیں تعمیر کیں، وہ اپنے نقشوں اور اپنی وضع Ùˆ ہیئت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہوگئیں۔پس، Ø+Ù‚ اور صدق کا اگر Ø+Ú©Ù… لگایا جاسکتا ہے تو اس اصل مشترک پر لگایا جا سکتا ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے نہ کہ ان مختلف تفصیلی صورتوں اور ہئیتوں پر، جن میں موجودہ مذاہب پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ Ø+Ù‚ ایک جنس بسیط ہے، اس Ú©Û’ افراد میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ جس طرØ+ ہم سیاہ اور سپید، سرخ اور سبز پر لفظ ’’رنگ‘‘ کا اطلاق یکسانی Ú©Û’ ساتھ کرتے ہیں، اس طرØ+ خدا ایک ہے اور خدا دو ہیں اور خدا کروڑوں ہیں Ú©Û’ مختلف اØ+کام پر لفظ ’’Ø+ق‘‘ کا اطلاق نہیں کر سکتے۔

    یہ بات کہ تمام مذاہب Ú©ÛŒ اصل ایک ہے، اور ایک صداقت ہے جو مختلف قوموں پر مختلف زمانوں میں ظاہر Ú©ÛŒ گئی، قرآن مجید میں صراØ+ت Ú©Û’ ساتھ بیان ہوئی ہے۔ اس کتاب میں بار بار کہا گیا ہے کہ ہر قوم میں خدا Ú©Û’ رسول اور پیغامبر آئے ہیں: ترجمہ ’’ــیہ تمام انبیاء Ùˆ رُسل ایک سرچشمے سے صداقت کا پیغام Ø+اصل کرتے تھے:‘‘ (فاطر 35:24) ان سب کا پیغام ایک ہی تھا، اور وہ یہ تھاکہ، ترجمہ ــ ’’خدا Ú©ÛŒ بندگی کرو اور تمام باطل معبودوں Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دو‘‘۔سب پر خدا Ú©ÛŒ طرف سے ایک ہی ÙˆØ+ÛŒ آئی تھی:‘‘(النØ+Ù„16:36)

    Ù+Ù€:ترجمہ ــــ’’ اے Ù…Ø+مد(ï·º)! تم سے پہلے ہم Ù†Û’ جو رسول بھی بھیجا ہے ۔اس Ú©ÛŒ طرف یہی ÙˆØ+ÛŒ Ú©ÛŒ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا تم میری بندگی کرو۔‘‘(انبیاء21: 25)

    ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو کچھ ہم پیش کر رہے ہیں، وہ ہماری اپنی عقل و فکر کا نتیجہ ہے، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ یہ سب خدا کی طرف سے ہے:

    Ù+Ù€: ترجمہ ’’ ہم یہ قدرت نہیں رکھتے کہ خدا Ú©Û’ اذن Ú©Û’ بغیر کوئی Ø+جت لاسکیں۔ جو ایمان لانے والے ہیں وہ تو خدا ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ہم کیوں نہ خدا پر بھروسہ رکھیں،جب کہ اسی Ù†Û’ ہم Ú©Ùˆ ہدایت بخشی ہے۔‘‘ (ابراہیم14:11-12)

    پھر ان میں سے کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ تم ہماری بندگی کرو، بلکہ سب یہی کہتے رہے کہ خدا پرست بن جائو:

    Ù+Ù€:ترجمہ ــ’’ کسی بشر کا یہ کام نہیں کہ اللہ جب اس Ú©Ùˆ کتاب اور Ø+Ú©Ù… اور نبوت عطا کرے تو وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا Ú©Û’ بجائے میرے بندے بن جائو، بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ خدا پرست بنو۔‘‘(آل عمران 3:79)

    یہ تھی وہ مشترک تعلیم جو تمام قوموں کو ان کے مذہبی رہنمائوں نے دی تھی۔















  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: رواداری ۔۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •