جذبۂ ایثار ۔۔۔۔۔ عبدالقادر شیخ
jazba-e-esaar.jpg
ایثار عربی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی دوسروں کے فائدے کے لیے اپنے آپ کو تکالیف اور مصائب میں ڈالنے کے ہیں۔ اسے یوں بھی کہاجا سکتا ہے کہ دوسرے کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دینا یا دوسرے کو نفع پہنچانا، اپنے مال کا کچھ حصہ یا پورا ہی کسی کو دے دینا ۔
لوگ ایثار کے مقابل کم علمی کی بناپر لفظ قربانی استعمال کرتے ہیں جس سے اس لفظ کا منشا پورا نہیں ہوپاتا۔ مثلاً یہ کہنے کے بجائے کہ میں نے فلاں کی خاطر اپنے مال کی قربانی دی تا کہ اس کے حالات بدل جائیں،اس موقع پر یہ کہا جائے گاکہ میں نے فلاں کی خاطر ایثارکیا۔ یہ سخاوت کے اعلیٰ ترین مرتبے پر آتا ہے۔ عموماً یہ لفظ اسلامی تاریخ میں استعمال ہوتا ہے جہاں اکثر مواقع پر مسلمانوں نے دوسروں کے فائدے کے لیے خود تکالیف برداشت کیں ۔
قرآن حکیم میں اس کا ذکر اس طرح ہے:
ترجمہ’’ اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنائی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں۔گوخود کوکتنی ہی سخت حاجت ہو۔ (بات یہ ہے )کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد ) ہے ۔‘‘سورہ الحشر آیت ۹
اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق جو لوگ مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تھے وہ تمام کے تمام بلا شک و شبہ اہل ایمان تھے جب کہ اہل مدینہ کی اکثریت ہجرت کے بعد اسلام لائی تھی، جنہیں نصارٰی کہا گیا ہے اور ہجرت کرنے والوںکو مہاجر۔اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ مہاجرین کو اللہ کا رسول جو کچھ بھی دے دے اس پر انصار حسد اور بغض قطعی نہیں کرتے بلکہ وہ خود بھوکے رہے اور مہاجروں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے رہے ۔
ایثار کا ایک مشہور واقعہ حدیث مبارکہ میںاس طرح آیا ہے۔’’ حضرت ابو ہریر ہؓ آنحضرت ﷺکے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہﷺ میں بہت بھوکا ہوں (کچھ کھلائیے) آپؐ نے اپنی ازواج مطہرات کے پاس سے کچھ کھانے کیلئے منگوایا لیکن کسی ام المومنین کے پاس کچھ نہ نکلا۔ آخر آپ ؐ نے لوگوں سے (جو موجود تھے) فرمایا، کوئی ایسا ہے جو اس رات کو اس کی مہمان نوازی کرلے (اس کو کچھ کھلائے ) اللہ اس پر رحم کرے۔ یہ سن کر ایک انصاری شخص (ابو طلحہؓ ) نے کہا یا رسول اللہﷺ میں ان کی مہمان داری کروں گا۔ وہ انہیں لے کر اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے مہمان ہیں۔ کوئی چیز ان سے اٹھا کر مت رکھو، جو کچھ بھی ہو کھلا دیں۔
وہ بولی خدا کی قسم میرے پاس اتنا کم کھانا ہے جو بہ مشکل بچوں کو بھی پورا نہ ہو سکے گا۔ ابوطلحہ ؓنے کہا تو ایسا کر جب بچے کھانا مانگنے لگیں تو توانہیں سلا دینا اورچراغ بجھا دینا، ہم دونوں بھی آج رات کھانا نہیں کھائیں گے۔لہٰذا (امّ سلیمؓ) نے ایسا ہی کیا۔ صبح حضرت ابو طلحہؓ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ؐ نے فرمایا، رات کو اللہ تعالیٰ نے تعجب کیا۔ فلاں مرداور فلاں عورت (ابو طلحہ، ام سلیم ) پر اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ۔
صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ الحشر آیت۹
ایثار پر ایک اور حیرت انگیز واقعہ بخاری شریف میں رقم ہوا ہے، جو ابراہیم بن اسعد سے روایت ہے، جسے انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیاہے۔ فرماتے ہیں کہ،’’ جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو آنحضورؐ نے مہاجرین اور انصار میں مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کیااور ایک انصار کو دوسرے مہاجر کا بھائی بنایا۔ سعد بن ربیع انصاریؓ کو حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کا بھائی بنایا۔ سعد ؓ نے حضرت عبدالرحمان ؓ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیاد ہ مال دار ہوں۔ میں ایک بھائی ہونے کے ناتے اپنا آدھا مال تمہیں پیش کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری دوبیویاں ہیں۔ تم انہیں دیکھ لو اور جو تمہیں اچھی لگے میں اسے طلاق دے دوںگا اور بعداز عدت تم اس سے نکاح کرلینا ۔ عبدالرحمان بن عوف ؓنے جو اب میں کہا کہ خدا تمہارے مال میں برکت عطا فرمائے ۔ مجھے کوئی بازار بتادو کہ میں وہاں جاکر تجارت کر سکوں ۔چنانچہ انہیں بنو قینقاع کابازار بتا دیا گیا۔
صوفیاء کرام کے نزدیک ایثار یہ ہے کہ صحبت اور رفاقت میں اپنے ساتھی اور دوست کے حق کا خیال رکھے۔ حضرت داتاگنج بخش علی ہجویریؒ اپنی تصنیف ’’کشف المحجوب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایثار دوسروں کی مدد کرنا اور ساتھ ہی اس امر میں مشغول ہونا ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ؐ کو حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد مبارک ہے:
ترجمہ ’’درگزراختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض فرمائیے۔‘‘
ایثار دوقسم کا ہوتا ہے ایک تو صحبت میں جیسا کہ درج بالا ہوا ہے اور دوسرا محبت میں ۔حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی چیز کی خواہش کرے جب اسے مل جائے تو ترک کر دے اور دوسرے شخص کو اپنے آپ پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے ۔
ایثارصرف خدا کی راہ میں کیا جاتا ہے، خواہ وہ دوست کے لیے ہو ، عام مخلوق کے لیے یا پھر فی سبیل اللہ ۔ ایثار جان، مال، اولاد ،علم ،نفس اور جذبات وغیرہ سے بھی کیا جاتا ہے ۔
تاریخ اسلام میں بھی ایثار کی متعدد مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خاتون نے حضورنبی اکرمﷺ کی خدمت میں ایک چادر پیش کی۔ آپؐ کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ایک صاحب حاضر خدمت ہوئے۔ انہوں نے کہا کیا اچھی چادر ہے ۔آپ ؐ نے اتار کر انہیں دے دی۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے تو صحابہ کرام نے انہیں ملامت کی کہ تمہیں معلوم ہے کہ آنحضورﷺ کو اس کی ضرورت تھی پھربھی تم نے لے لی اورتم یہ بھی جانتے ہو کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اُس نے جواب دیا ہاں، میں نے یہ چادر برکت کے لیے لی ہے میں اس کا کفن بناؤں گا۔
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ،جو کہ یار غار بھی کہلاتے ہیں،نے ایثار کی سب سے بڑی مثال پیش کی ہے۔ انہوں نے صحبت یار کے لیے گھر بار، اولاد، مال و دولت سب کچھ چھوڑ دیا اور پھر کبھی بھی داعی اسلام کو ضرورت پیش آئی، سب کچھ رسالت مآبﷺ کے قدموں میں لاکر رکھ دیا۔
خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ ایک مجوسی غلام ابو لولو فیروز کے ہاتھوں مسجد نبویﷺ کی محراب میں زخمی ہوئے تھے۔ اپنی وفات سے قبل اپنے بیٹے عبداللہ کو ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بھیجا کہ انہیں حضور اکرم ؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دے دی جائے۔ انہوں نے جواب میں عرض کیا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی مگر عمر ؓ کی خدمات اسلام میں مجھ سے زیادہ ہیں۔ اس لیے میں یہ جگہ ان کے لیے ایثار کرتی ہوں۔ اس طرح حضرت عمر ؓ وفات کے بعد بھی آپؐ کے پہلو میں ہیں جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ جنت البقیع میں دیگر ازواج کے ہمراہ آرام فرماہیں ۔
جنگ یرموک کاایک مشہور واقعہ دینی کتب اور صحابہ کرام ؓ کے واقعات میں اس طرح لکھا ہوا ہے کہ ’’حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں یرموک کی لڑائی میں اپنے چچا زاد بھائی،جو اس لڑائی میں شریک تھے ، کی تلاش میں نکلا۔ میں نے ایک پانی کا مشکیزہ ساتھ لیاکہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں ۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے تھے کہ دم توڑ رہے تھے ۔ میں نے پوچھا پانی دوں؟۔ اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی زخمی پڑے تھے، انہوں نے جاں کنی کے عالم میں آہ بھری۔ میرے چچا زاد بھائی نے آہ سن کر ان کی جانب اشارہ کیا کہ پہلے انہیں پلائوں۔ میں ان کی جانب بڑھا تو وہ ہشام بن ابی العاص تھے ۔ ابھی میں پہنچا ہی تھاکہ ان کے قریب ہی ایک تیسرے صاحب جو قریب المرگ تھے، انہوں نے بھی آہ کی۔ہشام نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو وہ شہادت پا چکے تھے۔ پھر میں ہشام کے پاس آیا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔ ان کے پاس سے ہی واپس اپنے بھائی کے پاس پہنچا تو اس دوران وہ بھی شہادت پا چکے تھے۔اس طرح وہ پانی جوں کا توں موجود رہا جو ایثار کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔
آج مسلمانوں کے جسموں سے ایثار کی روح نکل چکی ہے۔ حتی ٰ کہ اس لفظ سے بھی اکثریت ناشناس ہے۔ تب ہی تو آج کے دور میں قتل و غارت گری عام ہو چکی ہے ۔کاش ہمیںاسلام کے درس کا اعادہ ایک بار پھر کوئی کروا سکے تاکہ ہمارے قلوب ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو جائیں اور ہم دہشت گردی اور قتل وغارت سے نجات حاصل کر لیں۔