جون آف آرک,آزادی کی خاطر زندہ جل گئی ۔۔۔۔ خاور نیازی
John of eric.jpg
پیرس میں 30 مئی 1431 ء کا دن تھا ، مصروف ترین بازار کے ایک چوراہے میں پھانسی کی ٹکٹکی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔لوگ رک رک کر ایک نظر ڈالتے، چہ مگوئیاں کرتے اور چل دیتے۔اتنے میں چبوترے پر کھڑے پادری نے چیختے ہوئے کہا،
'' یہ لڑکی جادوگرنی ہے ، اس کی روح کو بچانے کے لئے اسے زندہ جلانے کا فیصلہ کیا گیاہے‘‘۔
پادری کی آواز سنکر بہت سے لوگ رک گئے ، سرکاری جلاد رسیوں سے بندھی ایک انیس سالہ لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے لائے اور ٹکٹکی سے باندھ دیا۔ لڑکی کو دیکھ کر سبھی حیران رہ گئے۔ کل تک اسے مقدسہ مانا جاتا تھا ،آج جادوگرنی کیسے بن گئی؟ اتنے میں ٹکٹکی کے ارد گرد رکھی لکڑیوں کو آگ لگادی گئی ، شعلے اس کی طرف بڑھنے لگے ، لڑکی نے اپنا منہ آسمان کی طرف کیا اور بولی : ''یا خدا!میرا مشن مکمل ہو گیا۔شکریہ، شکریہ‘‘۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے بے رحم شعلوں نے اسے جلا کر راکھ بنا دیا۔
19 سالہ لڑکی کوئی اور نہیں 1412ء میں فرانسیسی گاؤں ڈومرمی میں پیدا ہونے والی '' جون آف آرک‘‘ تھی ،اس نے فرانسیسیوں میں آزادی کی روح پھونکی۔جون کا دعویٰ تھا کہ انگریزوں کے خلاف صد سالہ جنگ کے آخر میں اسے کہیں سے ہدایت ملتی تھی۔''جون‘‘ نے انگریزوں کے خلاف اپنی جد وجہد کو ''آسمانی حکم ‘‘ قرار دیا تھا اسی لئے اسے مقدس ہستی سمجھا جانے لگاتھا۔کچھ لوگ اسے جادو گرنی بھی کہتے تھے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسے عوامل تھے جنہوں نے ایک مقدسہ کو جادو گرنی بنا دیا اور پھر جادوگرنی سے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا؟اس کے لئے ہمیں جون آف آرک کی زندگی میں جھانکنا ہو گا۔
جون آف آرک کا پس منظر:یہ لڑکی فرانس کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئی۔ باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکی لیکن پیدائشی طور پر انتہائی زیرک اور بہادر تھی۔ مذہب سے گہرا لگاؤ تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس کا شاہی خاندان انتشار کا شکار تھا ۔ 1328ء میں بادشاہ چارلس کی وفات کے بعد ان کے خاندان میں کوئی مرد وارث نہ تھا، برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے تخت نشیں ہونے کی کوششیں شروع کر دیں جن کی فرانسیسیوں نے مخالفت کی۔ دوسری طرف فرانس کے فلپ ششم بھی ہر حالت میں بادشاہ بننے کے موڈ میں تھے۔ انگریز مختلف ہتھکنڈوں سے فرانسیسی علاقوں پر قابض ہوتے جا رہے تھے اور انکے مظالم میں اضافہ ہو تا جارہا تھا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جنگ کو تاریخ میں ''سو سالہ جنگ‘‘ کا نام دیا گیا جبکہ حقیقت میں 1337ء سے 1453ء تک جاری رہنے والی یہ جنگ 116 سال پر محیط تھی۔
جون نے جب ہوش سنبھالا تو فرانس کے بیشتر علاقوں پر انگلینڈ قابض ہو چکا تھا۔ انگریز آئے دن انکی جھونپڑیاں جلا دیتے، فصلیں تباہ کر دیتے اور مال مویشی لوٹ کر لے جاتے۔ظلم وستم سے تنگ آ کر لوگ گاؤں چھوڑ رہے تھے، یہ مظالم دیکھ کر جون ہر وقت افسردہ رہتی۔ایک روز انگریزوں نے اس کے گاؤں کو بھی آگ لگا دی جس میں اس کا نابینا بھائی بھی جل کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔اس واقعے نے جون کے دل میں انگریزوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کر دیا۔اس کے دل میں آزادی کی شمع لاوابن چکی تھی۔اب اس کا ایک ہی مشن تھا ، اپنے وطن کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانا۔
بحیثیت فوجی کمانڈر: جون نے ایک باغی بن کر مردانہ روپ دھار لیا۔ ا س نے آزادی کی خاطر وہ کارنامے سر انجام دئیے جو کوئی مرد ہی کر سکتا تھا۔ وطن کو آزاد کرانے کا جذبہ نیک نیتی پر مبنی تھا ۔اسکی دلیری اور فتوحات کے دشمن بھی معترف تھے لہٰذا سچے جذے کی جیت ہوئی اور اسے فرانسیسی فوج کے ایک دستے کی قیادت سونپ دی گئی۔ 10 اپریل 1428 ء کو جون نے پہلی مرتبہ فوجی وردی پہنی۔ وہ دس ہزار فرانسیسی فوجیوں کی قیادت کرتے ہوئے اوغلیوں کے شہر پر قابض انگریزوں پر حملہ آور ہوئی۔ حملے سے پہلے فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ،
'' ساتھیو! اپنے حوصلے بلند رکھنا ، ہماری جنگ حق کی جنگ ہے اور ہم یہ جنگ مقدس مقاصد کے لئے لڑ رہے ہیں۔لڑو،مذہب کے لئے ۔فرانس کے لئے‘‘۔جون نے دشمن کا نہایت دلیری سے مقابلہ کیا ، دوران جنگ بائیں بازو پر تیر لگا جس سے وہ زخمی ہوگئی لیکن جذبے میں کوئی کمی نہ آئی ۔اس کے پے در پے حملوں سے دشمن بوکھلا گیا اور جون کی فوج اپنے علاقے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
سازشوں کی زد میں: بے مثال کامیابیوں نے جہاں اسے شہرت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا وہیں حاسدوں اور دشمنوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ہر دن کے ساتھ سازشیں زور پکڑتی گئیں پھر ایک دن سازشی ٹولے نے اسے خطیر رقم کے عوض دشمن کے ہاتھوں بیچ دیا۔ انگریزوں نے اس کے خلاف حملہ کرنے، عورت ہوتے ہوئے مردانہ روپ دھارکر معاشرتی اقدار کی نفی کرنے اور اپنے کاموں کو مقدس قرارد یکر لوگوں کو گمراہ کرنے کے الزامات کے تحت کارروائی کی۔ پادری کاشین اور بشپ جین لیمٹائرنامی دو ججوں نے کیس کی سماعت کی ۔ بشپ جین لیمٹائر پہلے ہی سے اس کا جانی دشمن تھا لہٰذا تینوں الزامات درست قرار دیتے ہوئے عدالت نے اسے زندہ جلانے کا حکم دے دیا ۔سازشوں کو بھانپتے ہوئے اس نے یہ تاریخی الفاظ کہے: ''اب میں نے لوگوں میں آزادی کی شمع روشن کر دی ہے، میری موت سے انگریزوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ، فرانسیسی انگریزوں کے غلام بن کر نہیں رہ سکتے‘‘۔
فرانس کی آزادی اور مقدمے پر نظرثانی : اس کی موت کے چھ سال بعد 1437 ء میں فرانسیسی فوج نے پیرس کو آزاد کرا لیا۔ 1456ء میں پوپ کالسٹس سوم نے مقدمے کی ازسرنو تحقیقات کی اجازت دے دی ۔ عدالت نے اسے بے قصور تسلیم کر کے تمام الزامات سے بری کر دیا۔ 1920ء میں بینیڈکٹ پانز دہم نے اسے ''مقدسہ‘‘ قرار دیا۔آج بھی اس کی خدمات کے اعتراف میں فرانس میں 30 مئی کو '' قومی تہوار‘‘ منایا جاتاہے۔