حقیقت ایمان ۔۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

haqeeqat e eman.jpg
لفظ ’’اَمِنَ‘‘ کو باب افعال میں لے جائیں تو مصدر بنے گا: ’’ایمان‘‘ یعنی کسی کو امن دینا۔ تو لفظ ایمان کا ترجمہ ہوا ’’امن دینا‘‘۔ اسی سے اسم فاعل بنتا ہے: یعنی امن دینے والا۔ اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے ۔ سورہ الحشر میں فرمایا گیا ہے، ترجمہ ’’امن دینے والا‘ نگہبان‘ سب پر غالب‘ اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہو کر رہنے والا‘‘۔

کوئی خبر دی یا دعویٰ کیا تو جواب کی دو ہی شکلیں ہوں گی: تصدیق یا تردید۔ تصدیق کر دی تو امن رہا اور اگر تردید کر دی تو جھگڑا شروع‘ جھگڑا تھوڑا ہو یا زیادہ‘ زبانی کلامی ہو یا ہاتھاپائی ہو ،یا قتال اور خون ریزی‘ بہرحال جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔ چنانچہ تصدیق کرنے میں امن کے ساتھ تعلق برقرار رہا اور تصدیق کرنے کا معنی دعویٰ کرنے والے کو امن دینا ہے۔اس کا مطلب ہے سرسری طور پر کسی کی بات کو مان لینا۔ اگرچہ یہاں ایک استثناء موجود ہے ۔(سورہ العنکبوت: 26) یعنی ’’حضرت لوط علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لے آئے‘‘۔ یہاں ایمان لانا سرسری معنی میں نہیں ہے۔

اس کا معنی ہے بڑے وثوق اور بھرپور اعتماد کے ساتھ کسی بات کو مان لینا اور کسی کے دعوے کی تصدیق کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔شرعی اعتبار سے اس کے معنی میں جب ایمان نام ہے تصدیق کا‘ تو تصدیق ہو گی نبی کی‘ اس کے دعوائے نبو ت کی‘ اور اس دعوت کی بنیاد پر نبی جو کچھ پیش کرے اس کی۔

لغوی اعتبار سے ایمان نام ہے صرف تصدیق کا اور شرعاً رسول جو کچھ اپنے ربّ کی طرف سے لائے اس کی تصدیق کا۔

نبی اور رسول کی لائی ہوئی تعلیمات مختلف امور پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ غیبی امور ہوتے ہیں مثلاً اللہ پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘آخرت پر ایمان۔ اسی طرح ان تعلیمات میں سے بعض کی نوعیت احکام کی ہوتی ہے۔ یہ اوامر ہیں‘ یہ نواہی ہیں‘ یہ فرائض ہیں‘ یہ حلال ہیں اور یہ حرام ہیں۔ نبی و رسول سابقہ اُمتوں کے حالات اور قصص بھی بیان کرتے ہیں‘ ان کی تصدیق بھی شامل ایمان ہو گی۔ لیکن معروف معنی میں لفظ ایمان کا اطلاق صرف ان غیبی امور کی تصدیق پر ہوتا ہے جن کو جاننے کا ہمارے پاس خود اپنا کوئی ذاتی ذریعہ نہ ہو‘ مثلاً موت کے بعد کیا حالات پیش آنے والے ہیں؟ فرشتوں کو ہم نہیں دیکھ سکتے اور اسی طرح کے دوسرے غیبی امور ہماری دسترس سے باہر ہیں ۔ ایمان کا تعلق غیب کی خبروں سے ہے اور ایسی خبریں کوئی نبی یا رسول ہی دے سکتا ہے۔ ایسے غیبی امور سے متعلق مباحث کو فلسفیانہ اصطلاح میں ’’مابعدالطبیعیات‘‘ کا علم کہتے ہیں جو فلسفہ کی ایک اہم شاخ ہے۔ ’’طبیعیات‘‘ اور ’’مابعدالطبیعیات‘‘ ہمارے علم کے دو دائرے (domains) ہیں۔ ایک کا تعلق مادی دنیا یعنی physical world سے ہے اور یہ حواسِ خمسہ کا دائرہ ہے ان کے ذریعے سے ہمیں مادی کائنات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ سورہ اخلاص میں ہے کہ، ترجمہ ’’کہو: وہ اللہ یکتا ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے (اور سب اس کے محتاج ہیں)۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے‘ اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔‘‘

وہ ہستی ہر ضعف‘ عیب اور ہر احتیاج سے اعلیٰ و ارفع ہے‘ مبرا اور منزہ ہے۔ گویا ہر اعتبار سے کامل ہستی اور سبوح و قدوس ذات ہے جس اعلیٰ و اشرف صفت یا قدر کا بھی تصور کیا جا سکتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس صفت سے بتمام و کمال متصف ہے۔ وہ زندہ ہے اور اس کی زندگی مستعار نہیں‘ بلکہ اس کی ذاتی ہے‘ وہ ساری کائنات کو اپنی کمالِ قدرت سے تھامے ہوئے ہے۔ اسی طرح علم ایک اعلیٰ قدر ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیز کا پوری طرح اور ہمیشہ سے علم رکھنے والا ہے۔ اسے ہر شے کی قدرت حاصل ہے۔ اور سورہ الحدید کے مطابق وہ اپنے علم اور قدرت کے ساتھ ہر جگہ اور ہرآن تمہارے ساتھ ہی موجود ہے۔اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں‘ اس کی صفات میں کوئی شامل نہیں‘ اس کے حقوق میں کوئی ہمسر اور ساجھی نہیں۔ اس کے جملہ حقوق ایک لفظ ’’عبادت‘‘ میں آ جائیں گے۔اس سب پر ایمان لانا عین دین ہے لہٰذا عبادت صرف اور صرف اسی کی کی جائے گی‘ خواہ وہ انفرادی عبادت ہو یا اجتماعی عبادت‘ یعنی ایک فرد کے ذاتی معاملات سے لیکر پوری قوم اور ملت کے اجتماعی معاملات اور نظامِ حکومت و حکمرانی تک اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی اور اسی کا حکم۔

ایمان کے مراتب بہت زیادہ ہیں‘ اس لیے کہ ایمان کی intensity یعنی ایمان کی قوت یا شدت جسے ہم علم الیقین‘ عین الیقین اور حق الیقین سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی ایمان کے مراتب ہیں۔ ایمان کی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے بھی بے شمار مراتب ہیں‘ مثلاً ایک عام دیہاتی کے ایمان اور ایک عالم‘ دانا اور حکیم انسان کے ایمان میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔ اسی طرح کسی صحابی کے مقابلے میں عام مسلمان بلکہ کسی کامل ولی کے ایمان میں بھی بہت نمایاں فرق ہو گا۔ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک طرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ایمان اور دوسری طرف کسی عام صحابیؓ کے ایمان میں‘ ظاہر بات ہے‘ زمین آسمان کا فرق ہے۔

ایمان کے ان دونوں رُخوں یا پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے چند اصولی باتیں سمجھ لیجیے:

۔(1) ظاہری ایمان ----- بمقابلہ - - - - - باطنی ایمان

۔(2) قانونی ایمان----- بمقابلہ----- حقیقی ایمان

۔(3) دنیا میں معتبر ایمان--- بمقابلہ --- آخرت میں معتبر ایمان

ایمان کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذکورہ بالا امور پر مختلف زاویوں سے غور کرنا ہے۔ ایمان مجمل کے الفاظ پر ذرا غور کریں۔ اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ایمان کے دو رُخ ہیں۔ ان دونوں میں سے سب سے اہم جس پر ساری بحث کا دارومدار ہے وہ ہے تصدیق بالقلب‘ یہ خفیہ اور باطنی چیز ہے اور دل کی کیفیت ہے۔ اس کی صحیح تحقیق دنیا میں نہیں ہو سکتی‘ ہمارے پاس اس کی verificationتوثیق یا تردید اور اثبات یا نفی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ہے‘ اس لیے کہ ہماری رسائی وہاں تک ہو ہی نہیں سکتی۔آخرت میں حساب کا سارا دارومدار تصدیق بالقلب پر ہو گا۔ فرض کریں ایک شخص دنیا میں مسلمانوں کا قائد بنا ہوا ہے‘ اگر وہ آخرت میں تصدیق بالقلب سے خالی پہنچا تو اس کا دعوائے ایمان کسی کام کا نہ ہو گا۔ البتہ دنیا میں تصدیق بالقلب تحقیق و تفتیش کا موضوع نہیں بن سکتا‘ اس لیے کہ اس کو ہم verify کر ہی نہیں سکتے‘ اس کے بارے میں اثبات یا نفی کا حکم لگا ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا اس دنیا میں جس بنیاد پر کسی کے ایمان کا فیصلہ یا معرفت ہو گی وہ زبان کا قول و اقرار ہے۔ دنیا کے اندر یہی فیصلہ کن ہو گا۔

امام مالکؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام احمد بن حنبلؒ‘ امام بخاریؒ اور دیگر محدثین کا عقیدہ ہے کہ’’ایمان قول و عمل کا نام ہے‘ جو اطاعت و نیکی سے بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہو جاتا ہے‘‘۔

ان حضرات کے نزدیک بھی عمل ایمان کا لازمی جزو ہے لیکن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان نہ ایمان و اسلام سے نکلتا ہے اور نہ ہی کفر میں داخل ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ سے انسان ایمان و اسلام سے نکلے گا تو نہیں‘ البتہ گناہ کی کمیت و کیفیت کی نسبت سے ایمان کم ہو جائے گا۔ ایمان نام ہے تصدیق و اقرار کا‘ یعنی دل سے تصدیق اور عمل میں اقرار۔ چاہے کوئی آدمی گناہ کبیرہ بھی کرے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا‘ البتہ اعمال سے ایمان کی کمیت میں کمی بیشی ہوتی ہے (نیک اعمال سے اضافہ اور گناہوں کی وجہ سے کمی) تاہم تصدیق جوں کی توں رہتی ہے۔

کبیرہ گناہوں کے باعث کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی‘ البتہ جن احادیث میں کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ایمان کی نفی کی گئی ہے اس کی توجیہہ فقہاء احناف کے نزدیک یہ ہے کہ ’’یہ کمال ایمان کی نفی ہے‘ نفس ایمان کی نفی نہیں ‘‘۔ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی انسان کے دل میں ایمان ہے تو بالآخر وہ سزا پاکر جہنم سے نکل آئے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔(کتاب ’’حقیقت ایمان‘‘ سے مقتبس)