تقویٰ ۔۔۔۔۔ علامہ رضاءالدین صدیقی

آگ جلا دیتی ہے۔ بہتے ہوئے پانی کا تندوتیز ریلا اپنی زدمیں آنیوالی ہر چیز کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے سو کوئی بھی انسان شعوری طور پر آگ کے قر یب نہیں جائیگا اور پانی کے ریلے کی زد میں آنے سے اجتناب کریگا۔ اجتناب کے بعد دوسرا مرحلہ انتخاب کا ہے۔ نقصان سے بچنے کے بعد فائدہ کی تلاش کی جاتی ہے۔ شر سے اجتناب ہی کافی نہیں خیر کا انتخاب بھی ضروری ہے۔ امام راغب اصفہانی نے تقویٰ کی بڑی خوبصورت تعریف کی ہے۔ تقویٰ یہ ہے تم پر اس جگہ موجود پائے جائو، جہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود دیکھنا چاہے اور ہر اس جگہ سے غیرحاضر پائے جائو جہاں تمہارا پروردگار تمہیں موجود نہ دیکھنا چاہے۔ گویا کہ تقویٰ میں حسنِ اجتناب بھی ہے اور حسنِ انتخاب بھی۔ امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب ؓنے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے استفسار فرمایا کہ تقویٰ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا اے امیرالمومنین کیا آپ کو کبھی ایسے راستے پر سفر کا اتفاق ہوا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں۔ امیرالمومنین نے فرمایا، ہاں بارہا ایسا سفر درپیش ہوا ہے۔ حضرت ابی نے پھر پوچھا، ایسے میں آپکے سفر کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ جواب ملا، جسم کو بچابچا کر اور دامن کو سنبھال سنبھال کر چلتا کہ کوئی کانٹا نہ جسم میں خراش ڈال سکے اور نہ دامن کو الجھا سکے۔ ابی بن کعب نے جواب دیا امیرالمومنین یہی تقویٰ ہے کہ زندگی کا سفر اس حسنِ احتیاط سے کیا جائے کہ گنا ہوں کا کوئی کانٹانہ جسم میں خراش ڈال سکے اور نہ اس کو الجھا سکے۔ حضر ت ابی بن کعب نے اس مختصر سی وضاحت میں اسلام کے حقیقی مزاج کو اور اسکی روح کو بیان کر دیا ہے۔ اسلام نہ تو رہبانیت اور گریز کی تعلیم دیتا ہے کہ زندگی کے سفر سے اور اسکی ذمہ داریاں سے فرار اختیا رکرو۔ بھکشو بن کر پہاڑوں کی گھپائوں میں بیٹھ جائو یا نروان کی تلاش کرو، صادھو بن بن کر بھبوت تن پر َملو اور لق ودق صحرائوں میں چلے جائو بلکہ اس امرکی تلقین کرتا ہے کہ کازار حیات میں مردانہ وار اترو لیکن زندگی کے اس سفر کو اس نزاکت احساس سے طہ کرو کہ گناھوں سے دامن آلودہ بھی نہ ہو، انسان نہ فرشتہ ہے کہ محض ذکر وتسبیح وطواف میں مشغول رہے اور نہ حیوان کہ ہمہ وقت جبلی خواہشات کا اسیر رہے وہ انسان ہے اور جب وہ حقیقی انسان بن جاتا ہے تو فرشتے بھی اس کو خراجِ عظمت وکمال پیش کرتے ہیں اور جانور تو کیا تمام مظاہر فطرت اس کیلئے تسخیر ہو جاتے ہیں۔