علامہ اقبالؒ کا آفاقی پیغام .... ۔ محمد نعمان چشتی

Allama iqbal ka afaqi pegham.jpg
شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ (1877ء - 1938ء) اپنی شاعری کا آغاز کرتے ہوئے اسرارِخودی کی تمہید میں کہتے ہیں کہ میرا یوسف اس بازار میں بکنے کے لیے نہیں ہے۔ میں آنے والے کل کے شاعر کی آواز ہوں۔ اقبالؒ آج کے دور کے شاعر ہیں۔ وہ دور جس کے بارے میں انھوں نے خود فرمایا : آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتانہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

اقبالؒ نے یہ شعر 1916ء میں کہا۔ جس وقت آج کے دور کی ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ علامہ اقبالؒ کی وفات تقریباً81 برس قبل ہوئی۔ ان سالوں میں اُن پر دنیا کی تمام بڑی اور بہت سی چھوٹی زبانوں میں پندرہ ہزار سے زائد کتب لکھی گئیں۔اُن کی شاعری اور فلسفے کے ہر موضوع پر مقالات لکھے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق علامہ اقبالؒ پر ہر دوسرے دن ایک نئی کتاب منظر پر آ رہی ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ آئیے ان کی اپنی تصانیف میں سے تلاش کریں۔ وہ اپنی اردو نثر کے پہلے مجموعہ علم الاقتصاد میں سوال کرتے ہیں: ’’کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے؟‘‘اسی طرح وہ اپنی فلسفیانہ نثر یعنی خطبات کی ابتدا جن انگریزی الفاظ سے کرتے ہیں : ’’ہم جس کائنات میں رہتے ہیں اس کی خاصیت اور ماہیت کیا ہے؟ کیا اس کی بناوٹ میں کوئی مستقل عنصر موجود ہے؟ اس سے ہمارا تعلق کس طرح کا ہے؟ کائنات میں ہمارا مقام کیا ہے؟ اور ہم کس قسم کا رویہ اختیار کریں کہ جو کائنات میں ہمارے مقام سے مناسبت رکھتا ہو؟‘‘

یہ سوالات کسی پاکستانی یا غیر پاکستانی، کسی مسلمان یا غیر مسلم کے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے مشترک ہیں ۔ ان سوالات کا جواب شیخ محمد اقبالؒ کو حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مفکرِ اسلام، ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبالؒ بناتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے، مگر وہاں کی تیز روشنی میں گُم نہیں ہوئے۔ انھوں نے مغربی تمدن کا بہت قریب سے جائزہ لیا، مغرب کے عظیم دانشوروں کی تصانیف کا مطالعہ کیا، اور پھر فرمایا:

خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

انھوں نے اس ثقافت کے اندر کے کھوکھلے پن کا مشاہدہ کیا اور اسے کھل کر بیان کیا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی
جوشاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

علامہ اقبالؒ یورپ میں تھے جب انھیں محسوس ہوا کہ وہ جن سوالات کے جواب کی تلاش میں تھے وہ انھیں مل گئے۔ یہ جوابات کسی مغربی مفکر، کسی دانشور سے نہیں بلکہ قرآن شریف کے بعض ایسے پہلو تھے جن کا تعلق اقوام کی زندگی اور دنیا کے مستقبل سے تھا۔یورپ سے واپس آکر اقبالؒ کی شاعری کی پہلی کتاب مثنوی اسرارِ خودی1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں اقبالؒ نے انفرادی خودی کا درس دیا۔وہ فرماتے ہیں:

کہ خودی ہی زندگی کو صورت فراہم کرتی ہے، جو کچھ تم دیکھتے ہو وہ خودی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔خودی کے قلم نے سیکڑوں آج تخلیق کیے تاکہ ایک کی صبح کو حاصل کر سکے۔ اپنا اظہار خودی کو مرغوب ہے۔ علت اور معلول کا سلسلہ بھی خودی کی تخلیق ہے تاکہ دنیا میں عمل کو ممکن بنایا جا سکے۔خودی اٹھتی ہے، روشن کرتی ہے، گرتی ہے، جلتی ہے، زندہ ہوتی ہے، جلاتی ہے، چمکتی ہے، بھاگتی ہے اور اُڑتی ہے یہاں تک کہ وہ خود کو بکھیر کر خاک کر دیتی ہے۔آرزو ہی زندگی کا اصل حاصل ہے اور اسی سے زندگی کو بقا حاصل ہے۔ عشق خودی میں پوشیدہ صلاحیتوں کی پرورش کرتا ہے اور اسے دنیا میں چمکانے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ عشق اپنی فطرت میں بے خوف ہے۔خودی کی تربیت کے تین مرحلے ہیں: اطاعت، ضبطِ نفس اور نیابتِ الہٰی۔

اقبالؒ کے اسی آفاقی پیغام کا دوسرا حصہ رموزِ بے خودی ہے، جس میں وہ اجتماعی خودی کا درس اس طرح دیتے ہیں:’’فرد اور جماعت کے درمیان تعلق باعثِ رحمت ہے کیوں کہ اس کا وجود ملت سے ہی کمال حاصل کرتا ہے۔ فرد ایک قطرے کی مانند ہے جو جماعت میں گُم ہو کر سمندر بن جاتا ہے۔ ایک قوم میں فرد ماضی اور مستقبل کے درمیان رابطہ بن جاتا ہے۔قوم ہی فرد کا جسم ہے اور قوم ہی اس کی روح۔ افراد کے اعمال کی قدر قوم کی ضروریات ہی سے متعین ہوتی ہے۔ تنہا فرد اعلیٰ مقاصد سے غافل رہتا ہے اور اس کی قوت، کمزوری کی طرف بڑھتی ہے۔ قوم ہی اسے نظم و ضبط دیتی ہے، اسے جڑیں اور محبت فراہم کرتی ہے۔ تم خودی اور بے خودی کا فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے وہم و گمان کا شکار ہو گئے ہو‘‘۔

ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی خودی، اقبالؒ کے نزدیک دو ستونوں پر قائم ہے:’’ توحید اور رسالت۔ توحید کا مطلب انسانیت کی وحدانیت اور رنگ، نسل یہاں تک کہ حیثیت کی تفریق کا خاتمہ بھی ہے۔ توحید پر یقین ہم میں نا امیدی، غم اور خوف کا خاتمہ بھی کرتا ہے۔حضرت محمدﷺ کی رسالت پر ایمان ہماری قوم کا دوسرا ستون ہے۔ فرد کا وجود خدا کے ساتھ تعلق سے قائم ہے مگر ملت کے وجود کی بنیاد ہی پیغمبرﷺ ہیں جو تمام دنیا کے لیے رحمت ہیں۔ نبوتِ محمدی ﷺ کا مقصد انسانوں کے درمیان بھائی چارہ، مساوات اور آزادی کا قیام ہے۔ چونکہ مسلم برادری عقیدہ توحید و رسالت پر قائم ہے اس لیے زمان و مکاں کی حدود سے بلند ہے۔ قوم کی تنظیم آئین کے ذریعے ہی ممکن ہے اور مسلم قوم کا آئین قرآن ہے۔ملت کا حصول سیرتِ رسولﷺ کے آداب اختیار کرنے سے ہے‘‘۔وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ تمھارا ایمان رسومات کا غلام بن گیا ہے، اپنی زندگی کا مقصد براہِ راست قرآن سے تلاش کرو۔آخر کب تک مادی خواہشات کے غلام رہو گے؟ خود کو سورہ اخلاص سے منور کرو۔انسانوں کو اجتماعی خودی کا درس دیتے ہوئے اقبالؒ بتاتے ہیں کہ زندگی دو قوتوں کو جنم دیتی ہے۔ پہلی فرعون اور یزید کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور دوسری حضرت موسیٰؑ اور امام حسین ؓ کی شکل میں۔ تمھیں چراغ کا نور بننا اور اس دنیا کو چمکانا ہے۔

علامہ اقبالؒ نے ملتِ اسلامی کو بالخصوص اور عالمِ انسانی کو بالعموم بیداری کا پیغام دیا۔ آپؒ کا فلسفہ خودی نہ صرف مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کی بحالی کا ایک پیغام تھا بلکہ دوسری قومیں جو برِصغیر پاک و ہند میں بستی ہوں یا ایشیا ، افریقہ و یورپ میں، سب کو آپ نے اپنے اندر کی خودی کو بیدار کرنے، سراب کے پیچھے بھاگنا چھوڑنے اور حقیقت کو پہچاننے کا درس دیا۔علامہ اقبالؒ نے اپنے پیغام سے سوئی ہوئی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا، انھیں اپنی عظمتِ رفتہ کی یاد دلائی۔علامہ اقبالؒ نے اپنے پیغام کا مرکز نوجوان نسل کو رکھا ہے۔ آپؒ کو نوجوانوں سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ فرماتے ہیں کہ:

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

علامہؒ کا سب سے بڑا احسان برِّصغیرپاک و ہند کے اسلامیان پر ہے کہ جن کوغلامی، پستی اور ذلت و رسوائی کی زندگی سے نکال کرایک علیحدہ وطن کا تحفہ دیا۔ انگریز و ہندو سامراج کے سامنے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ آپؒ کے شہرۂ آفاق خطبہ الہٰ آباد کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہ 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کا صرف صدارتی خطبہ نہ تھا بلکہ اس میں علامہ اقبالؒ نے نوآبادیاتی نظام کا مکمل احاطہ، اس دور کے اہم ترین مسائل پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے، مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کی تجویز دی:’’اسلام جو کہ ایک اخلاقی نصب العین اور ایک خاص قسم کی سیاست مدن کا نظام ہے۔ میری مراد ایک ایسے معاشرتی نظام سے ہے جو کہ ایک خاص ضابطہ قوانین کے ماتحت ہو ۔ ہماری ناکامی کی وجوہات جو کچھ بھی ہوں میں اب تک مایوس نہیں ہوں۔ جو قوم دوسری قوموں کے متعلق اپنے دل میں بدخواہی کے جذبات کی پرورش کرتی ہے وہ نہایت پست فطرت اوررذیل قوم ہے۔ میرے دل میں دوسری قوموں کے رسوم و شعائر، قوانین و ضوابط، مذہبی و معاشرتی ادارات کا بے حد احترام ہے۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیے، قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق مجھ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو میں دوسری قوموں کے معابد کی حفاظت بھی کروں۔میری یہ آرزو ہے کہ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک واحد ریاست قائم کر دی جائے۔ حکومت خود اختیاری زیر سایہ برطانیہ ملے یا اس سے آزاد۔ کچھ بھی ہو، مجھے تو یہ نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان ایک متحد اسلامی ریاست کا قیام مسلمانوں کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے‘‘۔

درج بالا سے یہ واضح ہے کہ اقبالؒ جس قسم کے پاکستان کے قیام کی خواہش کر رہے ہیں وہ اسلامی ضابطہ قوانین کے ماتحت ہو اور اس میں دوسری قوموں کی مذہبی رسومات اور ان کی عبادت گاہوں کی مکمل طور پر حفاظت کی جائے۔اقبالؒ کے آفاقی پیغام کا ایک رُخ حال ہی میں چین کے روڈ بیلٹ منصوبے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اقبالؒ ساقی نامہ میں فرماتے ہیں:

زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے

ہُوا اس طرح فاش رازِ فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ

پُرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے

گیا دَورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دِکھا کر مداری گیا

گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے

اقبالؒ نے یہ نظم 1920ء کے عشرے میں لکھی تھی۔ لیکن آج جب بریگزٹ کی باتیں ہو رہی ہیں، جب لندن رائڈز اور امریکن شٹ ڈاون معمول بن چکے ہیں۔ آ ج ان اشعار کی حکمت سامنے آ رہی ہے۔