کورونا‘غیر سنجیدگی اور عدم احتیاط

corona.jpg
کورونا وبا کے یومیہ نئے کیسز کی تعداد چار ہزار کے قریب جبکہ مثبت ٹیسٹوں کی شرح نو فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہ صورتحال ہر لحاظ سے ملک میں کورونا کی تیسری لہر کی شدت کو ظاہر کر رہی ہے مگر عوامی سطح پر جو احتیاط کی جانی چاہیے وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومتی ہدایت کے مطابق دکانیں جلد بند کرنے یا ہفتہ‘ اتوار کو بازار بند رکھنے کی تعمیل کی گئی‘ مگر وبا کے دنوں میں جو دیگر ضروری احتیاطیں ہیں انہیں نظر انداز کرنے کا رجحان بدستور موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے بزرگ شہریوں کے لیے کورونا ویکسی نیشن کی جو مہم شروع کی گئی ہے‘ اس سہولت سے بھرپور استفادہ کا رجحان بھی پیدا نہیں ہو سکا۔ اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں: پہلی یہ کہ سال بھر تک کورونا وبا کو برداشت کرنے اور دنیا جہاں میں اس وبا کی ہلاکت سامانی دیکھنے یا سننے کے باوجود ہمارے ہاں عوامی سطح پر اس خطرے کی معقول آگاہی پیدا نہیں ہو سکی‘ دوسری‘ ہم میں سے بہت سے افراد اب بھی اس طبی خطرے کے معاملے میں بے بنیاد باتوں‘ افواہوں اور پروپیگنڈا کا شکار ہیں۔ ان دو چیلنجز سے نمٹنا حکومت کی کورونا حکمت عملی کا اہم جزو ہونا چاہیے‘ اس کے بغیر اس خطرے سے جان چھڑانا آسان نہ ہو گا۔ حکومت کو اس سلسلے میں کمیونٹی کی سطح پر آگاہی تحریک کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں حکومتی اہلکاروں اور مشینری کے بجائے سماجی ادارے متحرک نظر آئیں۔

اس قسم کا عمل بہت آسان ہوتا اگر ملک میں بنیادی جمہوریت کے ادارے موجود ہوتے اور گلی‘ محلے اور برادری کی سطح تک جن کی پہنچ ہوتی۔ بنیادی حکومتی اداروں کی عدم موجودگی میں حکومت کوئی دوسرا ماڈل اختیار کر سکتی ہے‘ بلکہ بہتر ہوتا کہ گزشتہ برس ہی سے اس طرح کا کوئی نظام قائم ہو چکا ہوتا۔ ایک ’رضا کار فورس‘ قائم کرنے کی خبریں گزشتہ برس آتی رہیں مگر رضا کار عملی طور پر کہیں نظر نہیں آئے۔ یہ محرومی اب تک باقی ہے؛ چنانچہ حکومت کی جانب سے کورونا کے خطرات کے حوالے سے جو کچھ کہا جاتا ہے یا احتیاطی تدابیر جاری کی جاتی ہیں‘ انہیں سماجی سطح پر لوگوں تک پہنچانے اور قائل کرنے کا عمل نہ ہونے کی وجہ سے احتیاطی تدابیر عوام کے روزمرہ کا حصہ نہیں بن سکیں۔ ابلاغ کا کس قدر بحران ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حکومتی حکم کی تعمیل میں دکانداروں نے دروازوں پر ’ماسک کے بغیر داخلہ ممنوع‘ کے سٹکر تو لگا دیے مگر اس ہدایت پر نہ وہ خود عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں نہ وہ اپنے گاہکوں کو ایسی کوئی تاکید کرتے ہیں۔ یہی صورت پبلک ٹرانسپورٹ یا ہجوم والی کسی دوسری جگہ پر نظر آتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماسک کا استعمال عوام کی عادت کا حصہ بن چکا ہوتا‘ مگر اس احتیاط پر کتنے فیصد لوگ عمل کرتے ہیں‘ وبا کے موجودہ دنوں میں کسی بازار کے جائزے سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شاید ایک فیصد سے بھی کم لوگ ماسک پہننے ہوئے ہوں گے۔ صرف ماسک ہی کافی نہیں وائرس سے بچاؤ کے لیے مزید کئی احتیاطی تدابیر ہیں‘ جیسا کہ سماجی فاصلہ‘ ہاتھ دھونا‘ کھانسنے اور چھینکنے کی احتیاطیں وغیرہ مگر ہمارے ہاں ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسی صورت میں وائرس کو پھیلنے سے کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ دوسری جانب افواہ سازی اور پروپیگنڈے کے منفی اثرات کورونا سے بچاؤ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بعض صورتوں میں ہمار ے رہنما خود اس پروپیگنڈا کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں‘ چاہے وہ کوئی بات از رائے مذاق یا تنقید ہی کہہ رہے ہوں مگر عوام میں یا ان کے حامی حلقوں میں ان کی ایسی باتوں کے نتائج خوفناک ہوتے ہیں‘ اس لیے پہلے بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ رہنماؤں کو وبا یا اس کے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے کوئی بے بنیاد اور غیر سائنسی بات نہیں کرنی چاہیے اور پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں تا کہ انہیں دیکھنے والے لوگ بھی احتیاط کا دامن تھامیں۔