اللہ کی رضا ۔۔۔۔ امیر محمد اکرام اعوان

allah ki raza.jpg
ملائکہ نوری مخلوق اورنفس سے پاک ہیں۔ بھوک ‘گرمی‘ سردی‘ خواب‘ بیداری کا ان پر کوئی اثر نہیں ہے۔ پھر ملائکہ دو طرح کے ہیں‘ ایک وہ ہیں جو صرف اﷲ کے ذکراور عبادت میں مصروف ہیں۔ وہ جس وقت سے پیدا کیے گئے‘ اگر اس وقت سے قیام میں ہیں توابدالآباد تک قیام میں رہیں گے‘ جو رکوع میں ہیں رکوع میں ہی رہیں گے‘ سجدے میں ہیں تو سجدے میں ہی رہیں گے یعنی ان کا کام ہی عبادت ہے۔
دوسری قسم کے ملائکہ وہ ہیں جنہیں مدبرین امور کہا جاتاہے‘ امور کی تدبیر کرنے والے ۔ بادل کہاں بناناہے‘ بارش کہاں برسانی ہے‘ پانی کہاں پہنچانا ہے‘ ہوا کیسے چلے گی‘ پہاڑوں میں سے کس کو قائم رکھناہے‘ کس کو گرانا ہے‘ کھیتیاں کیسے اگیں گی‘ فصل کیسے ہوگی‘ پھل کیسے پکیں گے؟ لیکن اس ساری تدبیر میں ان کا کوئی ذاتی دخل نہیں ہے ۔نہ کسی کام کے کرنے میں انہیں لذت محسوس ہوتی ہے نہ ہی کسی کام کے کرنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے ۔جو حکم ہوتاہے وہ بجا لاتے ہیں۔اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے‘ جو حکم ہوتاہے بجا لاتے ہیں لہٰذااگر حکم ہوتاہے کہ سردی لے آئو تو اس سردی سے انہیں نہ کوئی تکلیف ہے نہ آرام ‘یا حکم ہوتاہے پھل لگائو اس میں مٹھاس لائوتو انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ میٹھا ہے یا تلخ۔ انہیں جوحکم ہو‘ اس کی تعمیل کرنی ہے ‘وہ بجا لاتے ہیں اور اسی طرح فرشتوں سمیت ساری کائنات اﷲکے حکم کی فرمانبردار ہے۔

نائب صرف تصرف ہی نہیں کرتا بلکہ جس ہستی کا وہ نائب ہوتاہے اس سے رابطہ بھی رکھتاہے ورنہ نیابت کیسی،! مالک کے ساتھ اس کا بڑا گہرا رابطہ ہوتاہے‘ اس کی پسند و ناپسند کو پہچانتا ہے‘ ا س کی رضا اور نارضا مندی سے واقف ہوتاہے ‘ وہ کس بات سے خوش ہوگا کس بات سے خفا ہوگا؟ پھر اس سے حکم حاصل کرکے نیچے مخلوق پر تصرف کرتاہے۔ براہِ راست احکامات الٰہی وصول کرنا‘ اس کی رضا کو پہچاننا‘ اس کی نارضامندی کو جاننا‘ یہ منصب جنہیں نصیب ہوا وہ ا ﷲکے نبی اور اس کے رسول ہیں ۔باقی مخلوق کو اﷲ کی پسند و ناپسند یا احکام‘ اوامرونواہی کا علم انبیاء علیہم السلام کی وساطت سے ہوتاہے۔ خلیفۃ الارض حضرت آدم ؑ اور ان کے بعد حقیقی خلفاء انبیاء و رسل علیہم السلام ہیں۔ باقی ساری انسانیت اس بات کی مکلف ہے کہ ان سے اﷲ کے احکام حاصل کرکے ان کی بجا آوری کرے ۔

فرشتوں نے یہ عرض کیااﷲکریم تُوبے نیاز ہے۔ تُو ایک اور ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتاہے جو پھر زمین میں فساد پیدا کرے گی‘ خون بہائے گی اور ہم فرشتے ہر وقت تیری تسبیح اور تقدیس بیان کرتے رہتے ہیں ہمہ وقت تیر ی بڑائی کا اظہار کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہوا۔تم وہ بات سمجھ ہی نہیں پا رہے جو میں فرمارہا ہوں۔ میں جانتاہوں تم نہیں جانتے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ فرشتوں کا جواب ان کی اپنی رائے اور صوابدید کے مطابق تھا لیکن ارشاد باری سے مطابقت نہیں رکھتا تھاکیونکہ اﷲکریم فرما رہے ہیں کہ میں اپنا ایک خلیفہ اور نائب پید اکرنا چاہتاہوں ۔ زمین پر انسانوں سے پہلے جن بستے تھے ان میں عابد وزاہد بھی تھے لیکن چونکہ ان کی تخلیق آگ سے ہے ‘ان کے مادے میں شر زیادہ ہے ‘خیر کم۔ فرشتہ سراپا خیر ہے اس میں شر ہے ہی نہیں‘ جنوں میں شر زیادہ ہے اور مادۂ خیر کم ہے لہٰذا انہیں خلافت ارضی نہیں دی گئی ۔ اگر انہیں خلافت ارضی دی جاتی توپھر یہ بات نہ ہو تی کہ میں اپنا خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر بات یہ ہوتی کہ پہلے والے خلیفہ ناکام ہیں ‘ دوسرا بھیج رہا ہوں‘ جنات میں نبوت نہیں ہے۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ وہ زمین پر فساد کرتے تھے۔ اﷲکریم آسمانوں سے فرشتوں کو بھیجتے‘ وہ سرکشوں کو سزا دیتے لیکن فرشتے جب واپس چلے جاتے تو آہستہ آہستہ شر پھر غالب آ جاتا اور ان کی اصلاح کیلئے آسمانوں سے ملائکہ کو بار بار بھیجنا پڑتا۔ شیطان بھی جنوں میں سے تھا جس نے تقویٰ‘ عبادت اور زہد میں بہت کمال حاصل کیا حتیٰ کہ آسمانوں پر فرشتوں میں رہائش کی اجازت مل گئی۔ اس وقت جنات آسمانوں پر آجا سکتے تھے‘ ان کا آسمانوں پر آنا جانا نبی کریمﷺ کی بعثت سے موقوف ہوا۔ مولانا محمد خانؒ نے سورہ بقرہ کی تفسیر میں لکھاہے کہ جب فرشتے جنوں کی اصلاح کیلئے آتے تو اکثر اوقات ابلیس کوان کا سردار بنا کر بھیج دیا جاتا۔ ایک فارسی کا شعر بھی انہوں نے وہاں درج کیا ہے ۔

زراہ تفاخر بہ فوج ملک

گہے بر زمین و گہے بر فلک

ترجمہ ـ’’بڑے فخر کے ساتھ فرشتوں کی فوج کے ساتھ کبھی زمین پر وارد ہوتا اور کبھی آسمانوں پر چلا جاتا۔‘‘ تو اﷲکریم نے یہاں فرشتوں کو جو خبر دی وہ یہ تھی کہ میں زمین پر اپنا ایک نائب پید اکرنا چاہتاہوں اور اس کا جو جواب انہوں نے دیا وہ ان کے اس تجربے پر تھا کہ پہلے زمین پر آپ نے جنات پیدا فرمائے، آئے دن وہ فساد ہی پیدا کرتے رہتے ہیں،شاید زمین پر رہنے کی خصوصیت ہی یہ ہے ‘آسمانوں پر تو کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ اﷲکریم! آپ ایک اور مخلوق پیدا فرمائیں گے تو پھر فساد کرے گی‘ آپس میں لڑیں گے‘ خون بہائیں گے‘ قتل و غارت ہوگی اور جہاں تک آپ کی عظمت‘ تسبیح و تقدیس کا تعلق ہے تو فرشتے ہمہ وقت رطب اللسان ہیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ تیری پاکی بیان کر رہاہے۔

کوئی ذرہ ایسا نہیں جو اﷲکی تسبیح بیان نہ کرتاہو۔ہر ایک کی اپنی زبان ہے ۔ قرآن مجید میں ارشادفرمایا گیا تم نے وہ بات ہی نہیں سمجھی جو میں نے ارشاد فرمائی ہے‘ تمہیں اس کا علم ہی نہیں۔ میں تمہیں یہ بتا رہا ہوں کہ میں اپنا ایک نائب اور خلیفہ زمین میں پیدا کرنا چاہتا ہوں‘ روئے زمین پر جو کچھ میں نے پیدا کیاہے وہ اس کا انتظام و انصرام کرے گا‘ اس کو استعمال کرے گا‘ اس سے فائدہ اٹھائے گا اور اس میں میری مرضیات شامل ہوں گی‘ میرے احکام نافذ کرے گا۔