نمونئہ عشق الٰہی ... آغا سید حامد علی شاہ موسوی
namona ishq-e-elahi.jpg
فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے نواسے حضرت امام حسین ؓحضرت علی ابن ابی طالب و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے پاکیزہ آنگن میں 3 شعبان المعظم 4ہجری کو تشریف لائے۔
اللہ کا دین پہنچانے اور اس کی تکمیل کی سند حاصل کرنیوالے نبی کریم ؐکو اپنے دین کے محافظ کی آمد کا بے چینی سے انتظار تھاجیسے ہی نواسے کی خوشخبری سنی جناب رسالت ماب ؐتشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان نواسے کے منہ میں دیدی۔ پیغمبر اکرمؐ کا مقدس لعاب دہن امام حسینؓ کی غذا بنا۔نانا نے نواسے کو اپنی زبان ایسے دی کہ نواسہ کٹی ہوئی گردن کے ساتھ بھی نانا کا لایاقرآن زمانے کو سناتا رہا اور اپنی قربانی سے ایسا انتظام کردیا کہ قیامت تک کوئی کذاب تکمیل دین ختم نبوت تعلیمات مصطفوی ؐ میں تحریف میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیل ؑ
(اقبالؒ)
آمریت و ملوکیت کامرض جب اسلام پر حملہ آور ہوا تو امام حسینؓ دین مصطفوی ؐکے معالج بن گئے قربانی اسمعیل ؑ کی تعبیر بن کر شہادت کی صورت دین کو ایسا نسخہ اکسیر دیا کہ ابد تک دین کی حفاظت کا سامان کردیا،آج اگر پوری کائنات میں صدائے لاالہ گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانیٔ حسین ؓ کی بدولت ہے ۔اسی لئے سلطان الہند خواجۂ اجمیر حضرت معین الدین چشتیؒ پکار اٹھتے ہیں ۔
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سرداد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
امام حسین ؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمۂ توحید اور مشن رسالت ؐکی لاج رکھی وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور ڈکٹیٹروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسندہی نہیں بلاتفریق مذہب ہر قوم امام حسین ؓ کو سلام پیش کرتی ہے ۔ امام حسین ؓ ہر مظلوم کے مسیحا اور ہر قوم کے نجات دہندہ بن گئے ۔
ماہ شعبان المعظم کو نبی کریم ؐ کا مہینہ کہا گیا اوریہ رمز الہٰی ہے کہ نبی کریم ؐ کے پہنچائے ہوئے دین اسلام کی حفاظت کی جنگ لڑنے والے میدان کربلا کے اکثر سپاہی جن میں نواسی رسول ؐ سیدہ زینب بنت علی ؓ، امام حسین ؓ، حضرت عباس علمدار ؓ،امام زین العابدین ؓ، نوشہ کربلاحضرت قاسم ابن حسن ؓاورہم شکل پیغمبرؐ شہزاد علی الاکبر بن امام حسین ؓاسی ماہ مقدس میں دنیا میں تشریف لائے ۔پیغمبر اکرؐم نے اللہ کے حکم سے اپنے نواسے کا نام حسین رکھا۔ منقول ہے کہ امام حسینؓ کا نام تورات میں شبیر اور انجیل میں طاب تھا۔ روایات میں ہے کہ حسن اور حسین دو بہشتی نام ہیں اور اسلام سے قبل یہ نام کہیں ذکر نہیں ہوئے تھے۔ماہرین علم النسب کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے حضرت فاطمہ زہراؓکے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین کے نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔
امام عالی مقام حضر ت امام حسین ؓکی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ سید الشہداء ، سبط اصغر،ریحانۃ الرسولؐ، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک ہیں۔حضرت ام الفضل بنت حارثؓ بیان کرتی ہیں کہ وہ سرکار دوعالمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے، گویا آپؐ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، انشاء اللہ فاطمہ زہراؓکے صاحبزادے تشریف لائیں گے اوروہ آپکی گود میں آئیں گے چنانچہ ایساہی ہوا ، حضرت اما م حسینؓ دنیا میں تشریف لائے میری گود میں آئے جیسا کہ حضور اکرم ؐ نے بشارت دی تھی ۔‘‘ ( دلائل النبوۃللبیہقی، شواہد النبوۃ)کتب تاریخ میں مرقوم ہے کہ 70 ہزار فرشتوں کا سردار فطرس جسے بال و پر سے اس لئے محروم کر دیا گیا تھا کہ اس نے مرضی معبود سمجھنے میں ایک پل کی دیر لگائی تھی جب اسے معلوم ہوا کہ نبی کریم ؐکے گھر میں نواسے کی آمد ہوئی ہے اور حضرت جبریلؑ رسول خدا ؐ کو امام حسین ؓ کی ولادت پر تہنیت پیش کرنے جا رہے ہیں تو گڑ گڑایاکہ مجھے بھی ساتھ لے چلو وہیں سے مجھے شفاء اور معافی مل سکتی ہے ،روح الامین ؑانہیں ساتھ لے آئے اور سرور کونینؐ کو غایت بیان فرمائی تو آنحضورﷺ نے نواسے کی ولادت کی خوشی میں اس کو سزا سے نجات دلوائی۔(روضۃ الشہداء ، غنیۃ الطالبین از شیخ عبد القادر جیلانیؒ)
پیغمبر اسلامﷺکی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ ’’حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہتر ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ) حضرت حذیفہ یمانی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات ﷺ کو بے انتہا مسرور دیکھا وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا ’’ آج ایک ایسا ملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداریٔ جنت پرمبارک دی اورکہا ،فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے جوانوں کے سردارہیں۔‘‘(کنزالعمال جلد 7، تاریخ الخلفاء، اسدالغابہ، اصابہ جلد2 ، ترمذی شریف، مطالب السول، صواعق محرقہ)۔
جامع ترمذی اور دیگر کتب احادیث میں منقول ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت فاطمہؓ غذا لے کرآئیں ، رسولؐ اللہ نے اپنی بیٹی کی تعظیم کی اور فرمایا علی اور میرے بچوں حسن و حسین کو بھی بلالاؤتاکہ ہم مل کرکھانا کھائیں ۔کچھ دیر بعدعلیؓ ، فاطمہ،ؓ حسنینؓرسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اسی وقت حضرت جبرئیلؑ آیۃتطہیر لے کر نازل ہوئے۔’’اے پیغمبر کے اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتاہے کہ تم کوہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویساپاک و پاکیزہ رکھے۔‘‘ (احزاب 33 )
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺخطبہ دے رہے تھے اتنے میں امام حسنؓ اور امام حسین ؓ ادھر آنکلے اس وقت وہ سرخ دھاری والا کرتہ پہنے ہوئے تھے آپؐ ان کو دیکھ کر منبر سے اترے اور گود میں اٹھا لیا اور پھر منبر پر گئے اس کے بعد آپ ؐنے پھر خطبہ فرمایا ۔ (سنن ابوداؤد)ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا’’ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھتا ہے جو حسین سے محبت رکھتے ہیں حسین پیشانی ہیں پیشانیوں میں سے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ ہم نبی کریم ؐ کے ساتھ نماز عشاء ادا کر رہے تھے۔ جب آپؐ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین آپ ؐکی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھایا جب تک شہزادے اپنی مرضی سے نہ اتر گئے۔ (مسند احمد، المستدرک للحاکم، طبرانی فی الکبیر)حضور اکرم ﷺکا فرمان مبارک ہے کہ ’’حسن میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرأت و سخاوت کا۔ ‘‘ (معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر،جامع الاحادیث للسیوطی ،کنز العمال)
امام حسین ؓکی ولادت کا دن امت مسلمہ سے تقاضا کرتاہے کہ نبی اکرم ؐ کا کلمہ پڑھنے والے متحد ہو جائیں،جذبۂ حسین ؓمسلمانوں کیلئے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کیلئے انمول سرمایہ ہیں۔ہر عہد میں صدائے حسینی ؓکی گونج مسلمانوں میں دین سے وابستگی اور راہ خدا میں قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے ۔یہ امام حسین ؓکی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ سرحدوں کے پاسبانوں سے لے کر دہشت گردی و برائی کے خلاف امن کی ضرب عضب میں مصروف ہر جیالا ارفع و اعلیٰ مقاصد کیلئے ہنس کر شہادت کا جام پیتا ہے ۔