حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں ۔۔۔ طارق حبیب
الیکشن کمیشن سے ٹکرانا دراصل ایک نئی جنگ چھیڑنے کے مترادف تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر مجھے وہ مریض یاد آ گیا جسے ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں اس لیے داخل کرایا گیا تھا کہ وہ ہر مسئلے پر لمبی لمبی تقریریں کر کے مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانیاں کراتا تھا مگر اختتام پر یہ کہتا تھا کہ ''جب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو پھر میں غلیل بنائوں گا اور چڑیا ماروں گا‘‘۔ ایک روز ایک وزیرصاحب ہسپتال کے دورے پر آئے، جب وزیر صاحب نے اس مریض سے ملاقات کی تو مریض نے انہیں حکومت کی خامیوں سے آگاہ کیا اور ان کے حل کا طریقہ بھی بتایا۔ وزیر صاحب اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے اور ڈاکٹر کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے جیسے ڈاکٹر نے غلط آدمی کو پاگل قرار دے کر زبردستی ہسپتال میں رکھا ہوا ہو۔ مریض سے پوچھا گیا کہ اگر تمہیں حکومت دے دی جائے تو کیا کرو گے؟ مریض نے اپنا ''تفصیلی منشور‘‘ دینے کے بعد اختتام پر کہا: اس منشور پر عمل سے جب تمام معاملات حل ہو جائیں گے تو میں غلیل بنائوں گا اور چڑیا ماروں گا۔ اب اگر دیکھیں تو ہمارے حکمرانوں کا حال اس کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ وہ مریض مسئلے کو سلجھانے کے بعد غلیل نکال کر چڑیا مارنے کا اردہ رکھتا تھا مگر یہاں پر معاملہ یہ ہے کہ توجہ معاملات اور ان کے سلجھائو پر نہیں بلکہ غلیل سے چڑیا مارنے پر ہے۔ حکومت کے پاس زبانی جمع خرچ تو بہت ہے مگر عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے اس کی تان مخالفین کے خلاف غلیل استعمال کرنے پر آ کر ٹوٹتی ہے۔
موجودہ حکومت جب قائم ہوئی تو یہ کئی حوالوں سے یکتا تھی۔ شاید سیاسی تاریخ کی یہ پہلی حکومت تھی جس کے ساتھ تمام ادارے ایک پیج پر تھے۔ یہ وہ تاریخی حکومت رہی‘ جسے اپنے ابتدائی دور میں کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ حکومت مخالف جو سیاسی جماعتیں موجود تھیں‘ وہ مقدمات کی بھول بھلیوں میں ایسے الجھی ہوئی تھیں کہ وہ حکومت کی مخالفت کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ غرضیکہ دور دور تک کوئی مقابل نہیں تھا۔ حکومت کا راستہ بالکل صاف تھا اور راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ ایسے مواقع خوش نصیبوں کے حصے میں آتے ہیں اور سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے ایسے ماحول کو غنیمت جانتے ہوئے گڈ گورننس کی مثال قائم کر دیتے ہیں تاکہ اپنی پوزیشن کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیںاور مخالف چاہ کر بھی آئندہ کبھی سیاسی راہ میں حائل نہ ہو سکیں مگر یہاں ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ اعزاز بھی اس حکومت کے حصے میں ہی آیا کہ کوئی مخالفت نہ ہونے کے باوجود حکمران عوام کو کچھ بھی ڈِلیور نہیں کر سکے۔ مہنگائی میں کمی، ادارہ جاتی اصلاحات اور ملکی معیشت میں بہتری سمیت سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایسے میں کسی نے کارکردگی کے حوالے سے سوال کیا بھی تو حکمران اسے ''احتساب کی غلیل سے ماری گئیں چڑیاں‘‘ گنواتے نظر آئے۔
اس حکومتی ٹیم کی خصوصیت یہ تھی کہ میدان میں یہ اکیلی ہی کھیل رہی تھی اور پھر بھی شکست کھاتی نظر آ رہی تھی۔ اپنے دعووں پر عمل تو کیا کرنا تھا‘ قومی نوعیت کے معاملات‘ جن پر مخالف جماعتیں بھی حمایت کر رہی تھیں‘ بھی اپنی نااہلی سے اس قدر گمبھیر بنا لیے جاتے کہ تماشا بن جاتے اور حکومت تضحیک و تنقید کی زد پر آ جاتی۔ مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہو یا ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قوانین کی تیاری، صدارتی ریفرنس ہو یا رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کا مقدمہ، آئی ایم ایف سے رجوع کرنا ہو یا مافیاز کے خلاف کارروائی، ہر معاملہ ایسے بھونڈے طریقے سے حل کیا گیا کہ گورننس مذاق بن کر رہ گئی۔ حکومتی ناپختہ کاری نے مخالف جماعتوں کو موقع فراہم کیا اور وہ حرکت میں آنا شروع ہو گئیں۔ ان کے مفادات و اہداف مشترکہ ہوئے تو اتحاد قائم ہو گیا اور بالآخر نصف مدت کے بعد کسی درجے پر حکومت کو اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اب حکومت‘ جو بغیر اپوزیشن کے بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی‘ نے اپنے سامنے اپوزیشن اتحاد دیکھا تو اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اپوزیشن کے مقابل خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش میں بھی ایسے ایسے بلنڈر کیے گئے کہ نالائقی کھل کر سامنے آ گئی۔ حکومت گورننس سے تو اپوزیشن کو شکست دینے کی اہلیت دکھا نہیں پا رہی تھی اس لیے احتساب کا کوڑا استعمال کیا گیا۔ حکومتی خوش قسمتی دیکھیں‘ اپوزیشن جماعتوں کے اندرونی اختلافات انہیں حکومت کے خلاف کسی حتمی فیصلے پر اکٹھا نہیں ہونے دے رہے۔ اس وقت بھی حکومت کے پاس پورا موقع تھا کہ وہ کچھ سنبھل جاتی مگر حکومت نے ''غلیل بنا کر چڑیا مارنے‘‘ کا عمل نہیں چھوڑا۔ اپنی کارکردگی پر بات کرنے کے بجائے مخالفین پر لفظی گولہ باری کو ہی ذریعۂ نجات سمجھ لیا گیا، یہی اس حکومت کا کل حاصل ہے۔
اس طرز پر 'نیا پاکستان‘ بنانے کا عمل جاری تھا کہ ضمنی انتخابات سر پر آن پہنچے۔ ضمنی انتخابات کوئی نئی بات تو تھے نہیں، پہلے بھی ہوتے رہے ہیں‘ ہرحکومت کے دور میں ہوئے ہیں اور اختیارات اور وسائل ہونے کی وجہ سے عمومی طور پر سرکاری پارٹی کے امیدواروں کے کامیاب ہونے کی روایت رہی ہے مگر یہ پہلی حکومت تھی جس نے اپنی ''دور اندیشی‘‘ سے کام لیتے ہوئے پہلے تو ان انتخابات کو نہ صرف زندگی و موت کا مسئلہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا، پھر اپنی جیتی ہوئی سیٹ پر شکست کھاکر اپنے حوالے سے شکست خوردہ ہونے کا تاثر بھی قائم کر لیا۔ ڈسکہ انتخابات میں تو ایسا غل مچا کہ دھند طنز و تنقید کا استعارہ بن گئی۔ رہی سہی کسر ڈسکہ انتخاب کو کالعدم قرار دینے نے پوری کر دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مقام پر ہی کچھ سمجھ بوجھ سے کام لیا جاتا مگر نادانیوں کا سلسلہ ابھی رکا نہیں۔ ان انتخابات کے بعد جب سینیٹ کی باری آئی تو یہاں بھی اناڑی پن پر مہر تصدیق ثبت کروائی گئی۔ ماضی میں سینیٹ میں تبدیلی کا عمل مخصوص طریقہ کار کے تحت خاموشی سے مکمل ہوتا رہا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سینیٹ انتخابات کے دوران ایسا ماحول بن چکا تھا جیسے عام انتخابات ہو رہے ہوں۔ ان انتخابات میں اکثریتی پارٹی بن جانے کے باوجود قومی اسمبلی کی ایک نشست پر شکست کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ فتح بھی شکست دکھائی دینے لگی۔ حکومت کی شکست کا تاثر قائم ہو جانا اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی کامیابی کا نہیں بلکہ حکومتی پھوہڑپن کا مظاہرہ تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وزیراعظم صاحب کو اپنی پارٹی اراکین کو 'بکائو‘ تسلیم کرنے کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا پڑا ۔ اس عمل نے پارٹی کے اخلاقیات کے دعووں کا بھی جنازہ نکال دیا۔ بہرحال جب سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات بھی مکمل ہو گئے اور حکومتی جماعت نے کامیابی حاصل کر لی تو وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اب وہ دوسری اننگز کھیلنے جا رہے ہیں۔ ان کے اس بیان سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ حکومت نے سبق سیکھ لیا ہے اور اب معاملات کو الجھانے اور تنازعات میں پڑنے کے بجائے عوامی مسائل پر توجہ دی جائے گی مگر یہ امید بھی عین اس وقت دم توڑ گئی جب حکومت غلیل لے کر الیکشن کمیشن کا شکار کرنے نکل پڑی۔
اس سب کے باوجود‘ اس حکومت کا برقرار رہنا اس کی خوش قسمتی کا مرہونِ منت ہے۔ آج بھی صورتِ حال اس کے حق میں ہے۔ پی ڈی ایم نامی اتحاد اختلافات کے باعث غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہو چکا ہے۔ لانگ مارچ ملتوی ہو چکا ہے۔ رمضان المبارک، عید اور اس کے بعد شدید گرمی اور بارشوں کے موسم کی وجہ سے اگلے چند ماہ تک حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کے شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اب بھی اگر تحریک انصاف کی حکومت نے تصادم اور مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے 'غلیل بنا کر چڑیا مارنے‘ کی رٹ نہ چھوڑی تو اس دوسری اننگز میں بھی حکومت خود ہی اپنے لیے اپوزیشن ثابت ہو گی۔ پھر شاید یہ مدت تو پوری ہو جائے مگر آئندہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو گی۔