حساب لینے اور زبان کھینچنے کا وقت!!!!۔۔۔۔ محمد اکرم چوہدری
مریم نواز شریف نے حساب لینے کا اعلان تو کر دیا کاش وہ حساب لینے کا سلسلہ اپنے والد میاں نواز شریف، چچا جان میاں شہباز شریف اور اپنے اردگرد کھڑے سابق وفاقی وزراء سے کریں۔ بالخصوص احسن اقبال سے حساب لیں جنہوں نے کھیلوں کے حوالے سے تمام اہم شہروں کو چھوڑ کر نارووال میں سپورٹس کمپلیکس تعمیر کروایا کیا سپورٹس کمپلیکس کے لیے نارووال کا انتخاب میرٹ پر کیا گیا تھا یا پھر صرف اس لیے کہ احسن اقبال حکومت میں تھے۔ اسی طرح میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف سے حساب لیں کہ انیس سو پچاسی میں ڈالر کی قیمت کیا تھی اور جب وہ حکومت سے علیحدہ ہوئے ڈالر کہاں تھا، جب مریم کے والد محترم اور چچا جان سیاست میں آئے اس وقت ملک پر کتنا قرض تھا اور جب وہ حکومت سے علیحدہ ہوئے اس وقت ملک پر کتنا قرض تھا، جب مریم کے والد محترم اور چچا جان سیاست میں آئے اس وقت بیرون ملک سے کیا کچھ آتا تھا، کتنا آتا تھا اور جب وہ حکومت سے علیحدہ ہوئے ہیں اس وقت درآمدات و برآمدات میں کتنا فرق تھا۔ جب مریم کے والد محترم اور چچا جان سیاست میں آئے اس وقت قوم اخلاقی طور پر کہاں کھڑی تھی اور جب وہ دو ہزار اٹھارہ میں اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو اس وقت قوم اخلاقی طور پر کہاں کھڑی تھی۔ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان، قرضوں کے بوجھ، ہیرا پھیری کا تو شاید حساب ہو سکتا ہے اس سلسلے میں ٹھوس ثبوت و شواہد بھی پیش ہو سکتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نے قوم کو اخلاقی طور پر جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ جمہوریت کے گذشتہ تیس پینتیس برسوں میں قوم اخلاقی طور پر تباہ ہو کر رہ گئی ہے، اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے، میرٹ قبرستانوں میں دفن ہو گیا ہے، ڈکیتیاں، چوریاں، ہیرا پھیری، نفاست سے جھوٹ بولنا، چکمہ دینا، لوٹ مار جیسی برائیاں جو کبھی شرمندگی کا باعث ہوتی تھیں اب جس کے ساتھ جتنے جھوٹ، چکمے، ناانصافی، چوری و ڈکیتی ہے وہ اتنا ہی معتبر بنا ہوا ہے۔ یہ میاں نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے ساتھی سیاست دانوں کا تحفہ ہے۔ ان سب نے مل کر اخلاقی لحاظ سے ملک کا اتنا نقصان کیا ہے کہ اس کا ازالہ مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ وہ اعداد و شمار کا ہیر پھیر کر کے مالی معاملات کا حساب تو دے دیں، باتوں کی حد تک اپنے ووٹرز کو قائل کر لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی بھی نقصان کا حساب نہیں دے سکتے وہ نہ مالی نقصان کا اور قوم کے اخلاق کو تباہ کرنے اور میرٹ کو دفن کرنے کا تو وہ کوئی بھی جواب نہیں دے سکے نہ جواب دے سکتے ہیں نہ حساب دے سکتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی زبان کھینچنے کی بات کرتی ہیں زبان تو وہ کھینچ چکی ہیں اس کرپٹ نظام کے حصہ داروں اور اس کرپٹ نظام سے مستفید ہونے والوں نے اپنی زبانیں ہی نہیں بلکہ اپنے دماغ، سوچ اور فیصلے بھی میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے پاس رکھوا دئیے ہیں۔ سو انہیں کسی بھی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے تو اپنی جماعت کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ یہ اندازِ گفتگو دباؤ، سیاسی ناکامی و پسپائی اور مشکل حالات کا نتیجہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کو سیاسی کندھا نہ دینے کا فیصلہ کر کے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خوابوں کو چکنا چور کیا ہے۔ آصف علی زرداری نے مسلم لیگ کو سیاسی طور پر اس جگہ لاکھڑا کیا ہے کہ ان کے آگے بھی موت ہے اور پیچھے بھی موت ہے۔ اس مشکل سیاسی صورتحال نے مریم نواز شریف کو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ غصے میں ہیں اور یہ بھی بھول چکی ہیں کہ حساب میاں نواز شریف نے اور مریم نواز شریف نے دینا ہے۔ عدالتیں تو حساب صرف ہیرا پھیری اور لوٹ مار کا لے رہی ہیں اس قوم کو جس دن یہ سمجھ آئی کہ میاں نواز شریف کے طرز سیاست نے ملک کو اخلاقی طور پر کتنا نقصان پہنچایا ہے قوم اس نقصان کا حساب لینے نکلی تو کسی کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ میاں نواز شریف کی سیاست کا تحفہ ہے کہ جھوٹ دلیری کے ساتھ بولا جاتا ہے، لوٹ مار کر کے قوم کا ہمدرد بننے کی کوشش کی جاتی ہے، قومی خزانے کو نقصان پہنچا کر عدالتوں میں جعلی کاغذات جمع کروائے جاتے، انصاف کے شعبوں کو داغدار کر کے اس اہم ترین شعبے کو متنازعہ بنا کر ملک میں ناانصافی کو عام کیا ہے۔ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن نہیں ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اخلاقی زوال ہے۔ تمام برائیاں یہیں سے جنم لیتی ہیں اور قوم کی اخلاقی تباہی کے ذمہ دار میاں نواز شریف اور ان کے بھائی میاں شہباز شریف ہیں۔ مریم نواز شریف بتائیں کیا وہ اس کا حساب دے سکتی ہیں؟؟ نیب جائیں اپنا حساب دیں۔ مسترد سیاست دان مولانا فضل الرحمٰن کو بھی ساتھ لے کر جائیں جو کچھ مولانا نے کرونا ویکسین بارے کہا ہے اس کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو قوم کی مشکلات اور درد کا کوئی احساس نہیں ہے۔ وہ ہوش و حواس کھو چکے ہیں کوئی باشعور شخص کرونا ویکسین کے حوالے سے عوام کو متنفر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن مولانا فضل الرحمٰن کی ذہنی حالت بھی مشکوک ہو چکی ہے۔ کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہی پھیلائی ہے اور ویکسین اس سے بچاؤ کا سب بڑا ذریعہ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ویکسین کے حوالے سے ابہام پیدا کر کے کسی اور کا نہیں اس ملک کے معصوم لوگوں کا نقصان کیا ہے۔ اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے اور ہمیں ایسی پست سوچ سے محفوظ فرمائے۔