شب برات کی فضیلت ، حقیقت کیا ہے؟ ... اسدالرحمان تیمی
shab e barat.jpg
عوام میں نصف شعبان کی رات کا اہتمام کرنے اور خاص طور سے اسی رات میں عبادات انجام دینے کے کئی اسباب ہیں، جس میں سب سے پہلی اور اہم وجہ ہے: بعض علمائے کرام کا اس رات کا اہتمام کرنا اور ان کا اپنی کتابوں میں اس رات کو خصوصی فضیلت والا بتانا (دیکھئے قوت القلوب، ابوطالب مکی)۔
ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ کی طرف منسوب ایسی بہت ساری احادیث کا وجود جن سے اس رات کی فضیلت، اس میں اعمال کی پیشی، عمر کی تحدید، رزق کی تقسیم، دعاء کی قبولیت اور خود رسول اللہ کااس رات عبادات کے اہتمام کا پتہ چلتا ہے لہٰذا اس عظیم ثواب کے حصول اور سنت نبوی ؐ کی پیروی میں لوگ اس رات کااہتمام اور اس رات کی تعظیم میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں۔مزید براں فرمان باری تعالیٰ: فیہا یفرق کل أمر حکیم(الدخان 4)۔"اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے"کی بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ علامہ زمخشری کہتے ہیں:
اس رات کے 4 نام ہیںـ: اللیلۃ المبارکۃ، لیلۃ البراء ۃ، لیلۃ الصک ولیلۃ الرحمۃ، اس رات کی5خصوصیات بیان کی جاتی ہیں: ہرفیصلہ شدہ معاملہ کی تقسیم ، اس رات عبادت کی فضیلت، رحمت کا نزول، نبی کو اسی رات شفاعت سے نوازا گیا، ظاہر ی طور پر اس رات زمز م کا پانی بڑھ جاتا ہے(الکشاف للزمخشری)۔
جبکہ وہ مبارک رات جس میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ کی بانٹ ہوتی ہے ،اس سے کون سی رات مرادہے؟اس سلسلے میں علماء کے2 اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ اس سے شب قدر مراد ہے۔ یہی جمہور علماء کا کہنا ہے، عبداللہ بن عمر ؓ، مجاہد، ضحاک، قتادہ، ابوزید اور حسن بصری رحمہم اللہ اور بہت سارے اسلاف سے یہی منقول ہے(دیکھئے: زاد المسیر لابن الجوزی)۔
زیادہ تر مفسرین کا بھی ماننا ہے کہ مذکورہ رات سے مراد شب قدر ہے۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ:
"بے شک ہم نے اسے (قرآن) ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہا، اسی رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے۔"(الدخان4)۔
اس آیت کی تفسیر میں علماء فرماتے ہیں کہ برکت والی رات سے مراد شب قدر ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے رات کو مبہم رکھا ہے لیکن دوسری جگہ واضح کردیا ہے کہ جس برکت والی رات میں قرآن کریم اتارا گیا ہے، وہ شب قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"بے شک ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر یعنی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔"
اور یہ نزول رمضان المباک کے مہینہ میں ہواجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا۔"(البقرہ185)۔
اور یہاں جس برکت والی رات کا جس میں ذکر ہوا ہے، اس برکت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بیان میں صاف کردیا کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس رات کو مبارکہ(برکت والی ) رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اللہ اس رات لوگوں کے درجات میں اضافہ فرماتا ہے، ان کی لغزشوں کو معاف کرتا ہے، قسمت کی تقسیم کرتا ہے، رحمت پھیلاتا ہے اور خیر عطا کرتا ہے (احکام القرآن لابن العربی)۔
ابن العربی کہتے ہیں:
"اکثر علماء کے نزدیک :فیہا یفرق کل امر حکیم(الدخان4)یعنی اسی رات میں ہر طے شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتاہے، سے مراد شب قدر ہے جبکہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے لیکن یہ بے بنیاد بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور فیصلہ کن کتاب قرآن مجید میں فرمایا:وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا(البقرہ185)۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر یہ بتادیا کہ نزولِ قرآن رمضان میں ہوا اور پھر رات کے وقت کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا:برکت والی رات میں(الدخان3)۔ لہٰذا جس نے یہ گمان کیا کہ یہ دوسری کوئی رات ہے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا (احکام القرآن لابن العربی)۔
ابن الجوزی کہتے ہیں
"جو یہ کہتا ہے کہ اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے اس کی دلیل کچھ ضعیف آثار ہیں جو قابل اعتبار نہیں۔"(زاد المسیر)۔
علامہ شنقیطی کہتے ہیں:
"وہ احادیث جن کی بنا پر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شعبان کی رات ہے، قرآن کی صراحت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیادبھی ہیں، ان میں سے کسی کی سند درست نہیں، جیسا کہ ابن العربی اور دوسرے محققین کا کہنا ہے ۔ حیرت ہے اس مسلمان پر جو نصِ قرآن کی محالفت کرتاہے اور قرآن وصحیح حدیث سے کسی دلیل کے بغیر قرآن کی وضاحت سے انحراف کرتا ہے۔" (اضواء البیان) ۔
نصف شعبان کی رات کی فضیلت میں بعض علماء کے اقوال:
اگر عوام اس رات کا اہتمام کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اس رات میں نماز ،دعااور نیکی کے امور انجام دیتے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ علمائے عظام سے اس رات کی فضیلت منقول ہے اور اللہ کے رسول اللہکی طرف منسوب ایسی ڈھیر ساری احادیث ہیں جن سے اس رات کی اہمیت کا پتہ چلتاہے نیز مذکورہ بالاسطور میں سلف کی ایک جماعت کا قول گزرچکا ہے کہ آیتِ کریمہ : فیہا یفرق کل امرحکیم(الدخان4)اسی رات ہر طے شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے ۔اس سے مراد نصف شعبان کی رات ہے۔ ذیل میں اس رات کی فضیلت اورعظمت کی بابت بعض علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں:ـ
« امام احمد اور بعض حنابلہ سے منقول ہے کہ نصف شعبان کی رات فضیلت والی ہے (الفروع)۔
« امام شافعی سے مروی ہے کہ 5 راتوں میں خاص طور پر دعاء قبول کی جاتی ہے جن میں نصف شعبان کی رات بھی ہے (السنن الکبریٰ للبیہقی)۔
« ملاعلی القاری کہتے ہیں: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نصف شعبان کی رات میں فرق (طے شدہ معاملہ کا بٹوارہ ) ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث اس کی صراحت کرتی ہے البتہ اختلاف اس میں ہے کہ آیت میں مذکورہ رات سے مراد کونسی ہے۔ درست بات یہ ہے کہ نصف شعبان کی رات اس سے مراد نہیں، ایسی صورت میں آیت اور حدیث سے یہ اخذ کیا جائے گا کہ ان دونوں راتوں میں طے شدہ معاملہ کی بانٹ ہوتی ہے دونوں راتوں کی عظمت کی وجہ سے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک رات میں اجمالی طور پر ’’فرق‘‘ (طے شدہ معاملہ کی تقسیم) ہو اور دوسری رات میں تفصیلی طور پر یا یہ کہ ایک رات دنیوی امور کے لئے جبکہ دوسری اخروی امور کے لئے خاص ہو (نقلا عن تحفۃ الاحوذی)۔
« نواب صدیق حسن خان نے اپنی کتاب ’’السراج الوہاج‘‘ میں لکھا ہے کہ :
" شعبان میں روزے کی کثرت کی تخصیص کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے۔"
« عبدالرحمن مبارکپوری کہتے ہیں:
"نصف شعبان کی رات کی فضیلت کی بابت کچھ احادیث آئی ہیں جو مجموعی طور پر بتاتی ہیں کہ ان احادیث کی کچھ نہ کچھ اصل ہے۔" (تحفۃ الاحوذی)۔
« عبدالرازق نے بیان کیا ہے کہ زیادمنقری جو ایک قاضی تھے، کہا کرتے تھے کہ نصف شعبان کی رات (کی عبادت) کا اجر شب قدر کے اجر کی مانند ہے(المصنف لعبدالرزاق)۔
« امام نووی کی ’’المنہاج‘‘میں بھی اس طرح کی باتیں ہیں جن سے اس رات کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور یہ کہ اس رات اللہ کے ہاں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے (منہاج الطالبین للنووی)۔
« ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
"بہت سارے علماء یا ہمارے بیشتر حنبلی علماء اور ان کے علاوہ دیگر حضرات کی رائے یہی ہے کہ اس رات کی فضیلت ہے۔امام احمد کی بات سے یہی معلوم پڑتا ہے۔چونکہ اس بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں، سلف کے آثار سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ،مسانید اورسنن میں اس کی بعض فضیلتیں مروی ہیں، گرچہ اس بارے میں دوسری چیزیں اپنی طرف سے گڑھی ہوتی ہیں۔" (اقتضاء الصراط المستقیم)۔
« بعلی کہتے ہیں:
" جہاں تک نصف شعبان کی رات کی بات ہے تو اس کی فضیلت ثابت ہے، سلف میں بعض لوگ اس رات نوافل کااہتمام کیاکرتے تھے لیکن لوگوں کا مسجد میں اکٹھا ہوکر عبادت کرنا بدعت ہے۔ "
نصف شعبان کی رات کی فضیلت احادیث کے آئینے میں:
اس کی فضیلت میں جو احادیث آئی ہیں، ان میں چند درج ذیل ہیں:
« سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کو (بستر پر) نہیں پایا، میں آپ کی تلاش میں نکلی، آپ مجھے بقیع میں ملے اس حال میں کہ اپنا سر آسمان کی طرف بلند کئے ہوئے تھے، مجھے دیکھ کر فرمایا: اے عائشہ ! کیا تجھے اندیشہ تھاکہ اللہ اور اس کے رسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا،نہیں یہ بات نہیں، مجھے گمان ہوا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر اتر تا ہے اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بال کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔
یہ ایک ضعیف حدیث ہے۔دیکھئے ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان۔ امام ترمذی: کہتے ہیں: سیدہ عائشہؓ کی یہ حدیث صرف حجاج کے سند سے ہی مجھے معلوم ہے۔ میں نے محمد سے سنا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے عروہ سے نہیں سنا۔ محمد کہتے ہیں: حجاج نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بھی نہیں سنا۔
عبدالرحمن مبارکپوری تحفۃ الاحوذی کہتے ہیں: یہ حدیث حجاج اور یحییٰ کے درمیان اور یحییٰ اور عروہ کے درمیان 2 جگہوں پہ منقطع ہے۔ التہذیب میں ہیـ: یحییٰ بن المتوکل العمری کو احمد، ابن معین اور دوسرے لوگوں نے ضعیف گردانا ہے۔ ابن معین نے کہاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ۔ جو زجانی نے کہتے ہیں: اس کی حدیثیں منکر ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں: یہ حدیث کئی مضطرب اور غیر ثابت سندوںسے مروی ہے۔ صاحب ’’العلل المتناہیہ‘‘ نے اسے سلیمان بن ابی کریمۃ عن ہشام عن عروۃ عن ابیہ عن عائشہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے۔ ابن الجوزی اس سند کے بارے میں کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں ۔ ابن عدی کہتے ہیں: سلمان بن ابی کریمہ کی حدیثیں منکر ہیں۔ اس کی ایک دوسرے سند میں عطاء بن عجلان ہے جس کے بارے میں یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: وہ بھی کچھ نہیں ،اس کیلئے حدیثیں گھڑی جاتی تھیں۔ بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے( فیض القدیر للمناوی، الکامل لابن عدی)۔ ایک دوسری روایت ہے :سیدناابوموسیٰ اشعری ؓ، رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں:
"نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پرآتا ہے اور شرک وکینہ پرور کو چھوڑ کر اپنی ساری مخلوق کی مغفرت فرماتا ہے۔" (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)۔مجمع الزوائد میںہے:
اس کی سند ضعیف ہے عبداللہ بن لہیعہ کے ضعف اور الولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے۔امام منذری کہتے ہیں: حدیث کے راوی ابن عز رب کی ابو موسیٰ ؓسے ملاقات نہیں۔ اس حدیث کو صاحب کنزالعمال نے بھی ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے( العلل المتناہیۃ، مصنف عبدالرزاق اورتحفۃ الذاکرین للشوکانی میں اس کو دیکھا جاسکتا ہے)۔
تقریبا ً اسی قسم کے الفاظ میں یہ حدیث معاذ بن جبل سے بھی مروی ہے(منذری ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: رواہ الطبرانی وابن حبان فی صحیحہ)۔
سیدناابوبکر صدیق ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر اتر تاہے اور ہر شخص کی مغفرت فرماتا ہے سوائے اس کے جس کے دل میں کینہ ہو یا جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہو۔"
صاحب ’’العلل المتناہیہ‘‘نے اسے ذکر کرنے کے بعدکہا کہ یہ حدیث درست ہے نہ ثابت ہے۔ابن حبان اس کے ایک راوی عبدالملک کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’لایتابع علی حدیثہ‘‘۔امام یحیٰ بن معین اور نسائی کہتے ہیں کہ’’ وہ کچھ بھی نہیں‘‘ ۔امام بخاری کہتے ہیں’’اس کی یہ حدیث محل نظر ہے‘‘ ۔( دیکھئے میزان الاعتدال لیکن منذری ’’الترغیب ‘‘ کہتے ہیں کہ ’’ امام بزار اور بیہقی نے ابوبکر صدیق ؓ سے ایک سند سے روایت کیا ہے جس میں کوئی حرج نہیں)۔
یہ حدیث ایک دوسری سند : الاحوص بن حکیم عن حبیب بن صہیب عن ابی ثعلبہ الخشنی سے بھی منقول ہے(العلل المتناہیہ میں ابن الجوزی کہتے ہیں ’’یہ حدیث صحیح نہیں ‘‘، امام احمد فرماتے ہیں’’احوص کی احادیث روایت نہیں جاتیں‘‘، یحیٰ بن معین کہتے ہیں’’وہ کچھ بھی نہیں‘‘ ۔دار قطنی کہتے ہیں’’وہ منکر الحدیث ہے‘‘ اور’’یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے‘‘، جبکہ بیہقی نے ’’مرسل جید‘‘ کہا ہے)۔
ایک دوسری سند سے سیدنا ابوہریرہ ؓسے بھی مروی ہے (’’العلل المتناہیہ‘‘، ابن الجوزی کہتے ہیں ’’حدیث درست نہیں، اس میں کئی مجہول راوی ہیں‘‘۔ دارقطنی کہتے ہیں:یہ حدیث معاذ اورعائشہ ؓسے بھی منقول ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ مکحول کا قول ہے، بہر حال یہ حدیث ثابت نہیں)۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ نصف شعبان کی رات میں عمر لکھ دی جاتی ہے اور اس سال مرنے والوں کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے۔مثلاً دینوری نے اپنی کتا ب ’’المجالسۃ‘‘ میں راشد بن سعدان سے روایت کیا ہے کہ نبی نے فرمایا:
"نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ موت کے فرشتہ کو اس سال مرنیوالوں کے بارے میں وحی بھیجتا ہے۔"(الترغیب للمنذریوقال: رواہ ابویعلی۔ وہو غریب واسنادہ حسن والدر المنثور، وکنزل العمال، ونسبہ الی الدینوری فی المجالسۃ عن راشد بن سعد مرسلا وفی المیزان، وثقۃ ابن معین وضعفہ ابن حزم والتہذیب)
ابن ابی الدنیا نے عطاء بن یسار سے روایت کیا جاتا ہے کہ ’’جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو موت کے فرشتہ کو ایک صحیفہ دیاجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کی روح قبض کرلو، بندہ بستر پہ سویا ہوتا ہے، شادی کرتا ہے اور گھر بناتا ہے جبکہ اس کا نام اس صحیفہ میں لکھا ہوتا ہے(الدرالمنثور، ومصنف عبدالرزاق)۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
" 4راتوں میں اللہ تعالیٰ خیر کے دروازے کھول دیتا ہے: عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، نصف شعبان کی رات جس میں عمر، روزی اور حج کرنے والے کے بارے میں لکھا جاتا ہے اور عرفہ کی رات، صبح کی اذان تک۔" (الدر المنثور، وقال ابن العربی : لایصح فیہا شیٔ ولافی نسخ الآجال ،احکام القرآن)۔
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات دعا قبول ہوتی ہے مثلاً عبدالرزاق نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے :"
4"راتوں میں دعاء مستردنہیں ہوتی: جمعہ کی رات ،پہلی رجب کی رات، نصف شعبان کی رات اورعیدین کی رات۔"(مصنف عبدالرزاق)۔
نصف شعبان کی رات میں عبادات کااہتمام:
نصف شعبان کی رات کی فضیلت بیان کرنے والی مذکورہ احادیث کی بنا پر لوگ نہ صرف اس رات کی تعظیم کرتے ہیں بلکہ اس رات میں نماز اور دعاء کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اس رات میں عبادت کرنے کے سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں، ان میں سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
"جب نصف شعبان ہو تو رات میں عبادت کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات آفتاب غروب کے بعد آسمانِ دنیا پر اتر تاہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا جسے میں بخشش دوں؟ ہے کوئی روزی مانگنے والا جسے میں روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ، جس کی مصیبت دور کروں؟ یہاں تک فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان)۔
مجمع الزوائد میں ہے: محمد بن ابی سبرۃ جس کا نام ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابو سبرۃ ہے، اس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ امام احمد اور یحیٰ بن معین نے کہا ہے کہ وہ حدیث گھڑتا تھا(التہذیب)۔ بخاری نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن حبان کہتے ہیںـ وہ ثقہ رواۃ سے من گھڑت حدیثیں روایت کرتا تھا،اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں(العلل المتناہیہ)۔ حافظ عراقی کہتے ہیں: نصف شعبان کی رات کی نماز والی حدیث جسے ابن ماجہ نے سیدنا علیؓ سے روایت کیا ہے، باطل ہے (تخریج احادیث الاحیاء)۔
ابن قیم نے اس حدیث کوحضرت علیؓ سے مختلف الفاظ میں روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ :جو لوگ حدیث کا معمولی علم بھی رکھنے کے باوجود اگر اس قسم کی لغو یات پر دھوکہ کھاتے اور اس رات نماز پڑھتے ہیں تو ان کی عقل پر حیرت ہے( المنار المنیف)۔
ابن جوزی نے ابن کردوس عن ابیہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
" جس نے عیدالفطر،عیدالاضحی اور نصف شعبان کی راتوں میں عبادت کیا ،اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا۔"
ابن الجوزی فرماتے ہیں: یہ حدیث رسول اللہ سے ثابت نہیں۔ اس کی سند میں بہت سی آفتیں ہیں۔ اس کے ایک راوی مروان بن مسلم کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں ’’ثقہ نہیں‘‘ جبکہ نسائی، دار قطنی اور اَزدی نے اسے متروک الحدیث کہا ہے۔اس کے ایک دوسرے راوی مسلمہ بن سلیمان کے بارے میں ازدی کہتے ہیں کہ ضعیف ہے ،ایک اور راوی عیسیٰ کے بارے میں یحیٰ بن معین نے کہا ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں۔ د(یکھئے، میزان الاعتدال، التہذیب، والکامل لابن عدی )۔
اس رات نماز کی کیفیت اور اس کا حکم:
جن روایات میں اس رات کی خاص نماز کا ذکر آیا ہے ، ان میں نماز کی کیفیت اور رکعات کی تعداد الگ الگ طور پر بیان کی گئی ہیں۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا:
" جس نے نصف شعبان کی رات 12 رکعتیں پڑھیں اور ہررکعت میں30 بار’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھا تو وہ قبر سے نکلنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا اور اس کے گھر کے ایسے10 اشخاص کی سفارش قبول کی جائے گی جو جہنم کے مستحق ہوں گے۔"
ابن الجوزی اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں: یہ ایک من گھڑت حدیث ہے جس کی سند میں بہت سارے مجہول راوی ہیں۔ لیث تو ضعیف راوی ہیں ہی، ان سے پہلے کے راوی مصیت ہیں، الموضوعات، امام شوکانی نے بھی الفوائد المجموعہ میں کہا کہ یہ ایک من گھڑت حدیث ہے۔
بیہقی نے سیدنا علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ :میں نے نصف شعبان کی رات نبی کو دیکھا کہ آپنے14 رکعتیں پڑھیں اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد 14 بار سورۃ فاتحہ پڑھا 14 بار’’قل ہو اللہ احد‘‘ ، ’’قل اعوذ رب الفلق‘‘ اور’’قل اعوذ برب الناس‘‘14 بار آیت الکرسی ایک بار اور سورہ التوبۃ کی آیت ’’لقد جاء کم رسول من أنفسکم‘‘، اس کے بعد آپ نے فرمایا: جس نے میرے اس عمل کو اپنایا اس کو20 حج اور20 سال روزہ کا ثواب ملے گا۔ اگر دوسری صبح وہ روزہ رکھتا ہے تو اس کا روزہ 2سال کے روزے کے ثواب کے برابر ہوگا، ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال۔
بیہقی کہتے ہیں: یہ حدیث من گھڑت حدیث جیسی ہے(الدر المنثور) ۔ابن الجوزی کہتے ہیں: یہ ایک من گھڑت حدیث ہے اوراس کی اسناد تاریک ہے، اس کی سند میں محمد بن مہاجر نام کا ایک شخص ہے، جس کے بارے میں احمد بن حنبل فرماتے ہیں: وہ حدیث گھڑتا ہے(دیکھئے: الموضوعات لابن الجوزی)۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت ہے، جیسا کہ علمائے عظام کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس رات کو کسی متعین عبادت کے لئے خاص کرلیا جائے۔مثلاًرات میں نماز پڑھنا اوردن میں روزہ رکھنا کیونکہ اس بارے میں رسول اللہ سے کوئی قابل اعتماد حدیث کاپتہ نہیں جبکہ کسی عبادت کی قبولیت کی2 شرطیں ہیں: صرف اللہ کی رضامندی کے لئے ہواور سنت کے مطابق ہو۔اگر کسی بھی عبادت میں ان دونوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو وہ عبادت قابل قبول نہیں۔