مجسمے کے نام پر ٹکٹ جاری ۔۔۔۔۔ اسماء نوید
mujsama.jpg
امریکیوں کو آبائو اجداد کی تلاش ہے۔ چینیوں نے تو اپنا تعلق مفکر کنفیوشس کے ساتھ جوڑلیا ہے۔ کروڑوں چینی اس مفکر کی اولاد ہونا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ مگر امریکہ اور یورپی باشندوں کو اپنے بزرگوں کی کوئی خبر نہیں۔ان کے آبا ء و اجدادکون تھے ؟ کہاں سے اور کب آئے؟ ، امریکی نہیں جانتے ۔وہ اپنے آبائو اجداد کی تلاش کے لئے چہروں کے خد و خال کا جائزہ لے رہے ہیں۔اسی جستجو میں امریکی سائنسدانوں کو 9ہزار برس پرانی کھوپڑی ہاتھ لگ گئی ۔یہ سرسائنس دانوں کو 1993ء میں تھیوپٹرا ‘‘( Theopetra Cave)نامی غار سے ملاتھا۔ اس سر کا نام ''avgi‘‘ رکھاگیاتھا۔جس کا مطلب ہے تہذیبی ارتقاء !
ایتھنز میں ملنے والی اس قدیم کھوپڑی کی مدد سے انہوں نے ممکنہ خدو خال تیار کر لئے ہیں۔اب بلاخوف تردید کہتے ہیں کھوپڑی Mesolithic Age کی ہے ، اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ لہٰذا لڑکی کی شکل ہو بہو ایسی ہی ہو گی جیسی کہ وہ بتا رہے ہیں ، عمر 15سے 18سال کے درمیان اور قد 1.57 ہوگا ۔ انہوں نے ناک اور چہرے کے سائز کا اندازہ دانتوں کے سائز اور ہڈیوں کی ساخت سے لگایا۔ماہرین کا خیا ل ہے کہ لڑکی کے دانت آگے کی جانب نکلے ہوئے تھے ۔شاید بہت زیادہ دبانے یاکچکچانے کی وجہ سے دانتوں کی یہ شکل بنی ہو گی۔
سائنس دانوں کا تیار کردہ چہرہ کرخت سادکھائی دیتا ہے۔ شاید اس دور کی عورت نا خوش ہوگی۔ پروفیسر مانولس پاپا گری کو راکس( Manolis Papagrikorakis)نے لڑکی کا نام رکھا۔چہرے پر غمی کو دیکھتے ہوئے پروفیسر صاحب نے از راہ مذاق کہا ۔۔۔'' اس دور میں وہ ناراض رہنے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی۔ اس قسم کے (پسماندہ )دور میں وہ بھلا کیسے خوش رہ سکتی تھی۔اس کی موت بھی غالباََ بھوک یا کم خوراکی کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہوگی۔وہ خون کی کمی کا شکار ہو گی اسی لئے چہرے کا رنگ گہرا برائون ہے۔ وہ شائد scury کے مرض میں مبتلا ہوگی۔ وہ شائد معذور تھی، اورچلنے پھرنے کے قابل نہ تھی اسی معذوری کی وجہ سے موت واقع ہوئی۔اسی لئے ہم اس کا آدھا جسم بناسکے ہیں،سر سے دھڑ تک‘‘ ۔یہ سر ایک ایسے عہد سے تعلق رکھتی ہے جب تہذیب و تمدن کی پو پھوٹ رہی تھی۔ خیال ہے کہ کیپٹرا نامی غار میں لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے لوگ آباد ہوں گے یہ غار تھیسلے (thessaly) کے علاقے میں واقع ہے۔
یاد رہے ، یہی محقق 2010ء میں ایتھنز میں رہنے والی 11سالہ لڑکی مریطس (Myrtis) کا چہرہ بھی بنا چکے ہیں۔یہ ایتھنز میں لگ بھگ 5ویں صدی قبل مسیح میں رہتی ہو گی۔اس دور میں ہیضے کی وباء پھیلی تھی اسی سے اسکی موت واقع ہوئی ہوگی۔اقوم متحدہ نے اسے ''فرینڈز آف میلنیم ڈولپمنٹ گولز‘‘ کا خطاب دیا ہے۔یونان کے پوسٹ آفس نے اس کے نام کی ٹکٹیں بھی جاری کی تھیں۔کیونکہ سائنس دان بھی غربت کے خاتمے کے لئے کام کر رہے ہیں اور اس کی موت بھی غربت سے ہی ہوئی تھی۔ کتابوں میں ڈھکی ہوئی اس کی تصاویر آسٹریلیا بھرمیں تقسیم کی گئی تھیں۔اب یہ مجسمہ بچیوں کی تعلیم کی علامت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ لڑکی آج کی دنیا کو دیکھے تو اس کے کیا تاثرات ہوں گے؟ بھوک سے مرنے والی لڑکی کو یورپ میں اناج کی فروانی دیکھ کر کتنی خوش ہو گی۔ سائنسدان اب اس نکتے پرتحقیق کررہے ہیں۔یہ مجسمہ ''ایکرو پولس ‘‘ (Acropolis)کے عجائب گھر میں محفوظ ہے جہاں آنے والے ہر کسی کو اس کے ساتھ تصاویر بنانے کے لئے وقت چاہیے۔ سائنس دانوں کو اسی زمانے میں ایتھنز کے ایک گھر میں استعمال ہونے والے برتن اور دوسراسازو سامان بھی ملا ہے۔