عشق کی معراج ۔۔۔۔۔ رضا علی

ishq ki meraj.jpg
موت کو موت دینے کا جگر رکھتے ہیں
کیا صورت ایمانی کیا انداز فکر رکھتے ہیں

یوں تو ذات کبریا Ú©ÛŒ آشنائی پیمانہ عقول سے بھی بہت دور ہے مگر کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ Ú©Û’ ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔ دراصل اس کا اندازہ وہ لوگ بفضل خدا لگا لیتے ہیں جو درویشی میں دل لگائے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ موت Ú©Ùˆ بھی موت بخشنے کا ظرف رکھتے ہیں کہ انہوں Ù†Û’ اللہ Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت کا آب Ø+یات Ù¾ÛŒ رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ غم کا دریا پار کر Ú©Û’ عشق Ú©Û’ سمندر میں جا گرتے ہیں، پھر وہاں تزکیہ نفس کرنے Ú©Û’ بعد لفظ عشق میں Ú¯Ù… ہو جاتے ہیں اور یوں عالم لا شعور کا ایک لامنزل سفر شروع ہو جاتا ہے۔

زہد Ú©ÛŒ ابتدا ذات Ú©ÛŒ نفی اور زہد Ú©ÛŒ انتہا ہر قسم Ú©Û’ گناہ سے پرہیز ہے۔ پھر جو لوگ “انا الØ+ق” Ú©ÛŒ صدائیں دیتے ہیں پھر یہ شرف الدین سے “بو علی قلندر” ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ سقراط Ú©Û’ زہر کا پیالہ Ù¾ÛŒ لیتے ہیں۔ جب یہ عشق بڑھتا ہے تو کربلا درس گا ہ بنتی ہے جس کا نصاب ہی عشقِ الہٰی ہے۔

اللہ والے تو آتش عشق میں جل کر اپنا وجود ختم کر دیتے ہیں، پھر فانی باقی میں ضم ہو جاتا ہے۔ وہ اللہ جل جلالہ، غم دے کر یوسفؑ لیتا ہے، اس وقت وہ دراصل ہم سے صبر یعقوبؑ چاہتا ہے مگر جب شکوے کر کے ایمان کی رسی نذر آتش کر دیتے ہیں۔ جنت انسان کے نفس کی قیمت ہےمگر اللہ تعالی کی ہی مخلوق ہے اور انسان اشرف المخلوقات ہے تو پھر جنگ کی طلب کیسی۔

روØ+ Ú©Û’ رقص میں معرفت الہٰی ہے، معرفت Ú©ÛŒ شاخ ہی Ù…Ø+بت Ú©Û’ شجر تک پہنچاتی ہے۔

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

آج کا مسلمان اگر اپنے اندر Ú©Û’ فرعون Ú©Ùˆ مار کر اپنے اندر Ú©Û’ مومن Ú©Ùˆ باہر نکالے تو اپنی نگاہوں سے زمانے بدل سکتا ہے، کیوں کہ ان نگاہوں سے سجدے ہوتے ہیں۔ ان سجدہ ریز نشانیوں میں اللہ تعالی Ú©ÛŒ نشانیاں ہیں۔ موت تو مومن Ú©ÛŒ طلب ہے جبکہ وہ تو موت سے پہلے اس کا مزہ Ú†Ú©Ú¾ چکا ہوتا ہے۔ جب انسان مرتا ہے تو بھوک ہوتی ہے نہ پیاس، اسی طرØ+ مومن اپنی نفسانی خواہشات Ú©Ùˆ مار دیتا ہے اور اللہ تعالی Ú©Û’ سوا کسی Ø´Û’ کا خیال نہیں رہتا۔

رضا تیرے رب کی رضا چاہیے
کہ اب موت سے پہلے قضا چاہیے

مدینے Ú©ÛŒ تہذیب کا آپ Ù†Û’ مشاہدہ کیا ہو گا جس Ù†Û’ ÙˆØ+Ø´ÛŒ Ú©Ùˆ انساں بنایا اور پھر عالمِ ھُو (اللہ تعالی Ú©ÛŒ قربت کا بلند درجہ) تک پہنچا دیا۔ خیر عقل اور عشق Ú©ÛŒ جنگ جاری ہے۔ عقل تو Ù…Ø+ض بقائے نفس کا نام ہے جبکہ عشق سب Ú©Ú†Ú¾ راہ خدا میں قربان کرنے کا نام ہے۔ اس عشق Ú©ÛŒ تعریف تو آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ اس بات پر تو عارف کا قلم بھی Ú©Ú†Ú¾ زیادہ نہیں Ú†Ù„ سکا اور نہ Ú©Ú†Ú¾ زیادہ بیان کر سکا۔ خیر Ú©Ú†Ú¾ تو بات ہے Ø+Ù‚ کہ سفر میں کہ ہر Ø+Ù‚ مر Ú©Û’ بھی مطمئن ہے اور باطل مار کر بھی مضطرب ہے۔

Ú†Ù„ اٹھا دے پردہ اب Ø+قیقت کبریا سے
کہ ہے آنکھوں کا نور تیرا دیدار کرنے میں