جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سوجا ....عبدالحفیظ ظفر
hassan latif.jpg
پاکستانی فلمی صنعت کی خدمت یوں تو کئی سنگیت کاروں نے کی لیکن مقام رنج ہے کہ ابھی تک ان موسیقاروں کو ہی یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے زیادہ شہرت پائی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن موسیقاروں کو کم شہرت ملی یا انہوں نے اتنا زیادہ کام نہیں کیا ان کا سنگیت علیٰ درجے کا نہیں تھا۔ ان موسیقاروں نے بھی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ پاکستان کے جن موسیقاروں کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ان میں خواجہ خورشید انور‘ رشید عطرے‘ ماسٹر عنایت حسین‘ اے حمید‘ بابا چشتی‘ ماسٹر عبداللہ‘ نثار بزمی‘ سہیل رعنا کے نام لیے جا سکتے ہیں لیکن کیا سلیم اقبال‘ بخشی وزیر‘ لال محمد اقبال‘ خلیل احمد‘ ناشاد‘ مصلح الدین‘ صفدر حسین اور امجد بوبی کی صلاحیتوں سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اور پھر ایک اور موسیقار تھے حسن لطیف۔ کیا آج وہ بھی کسی کو یاد ہیں؟ ان کی شاہکار دھنوں کو اہل موسیقی آج بھی فراموش نہیں کرسکے۔ ان کے ہی ایک گیت نے مہدی حسن کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
۔1916ء میں ساہیوال میں پیدا ہونے والے حسن لطیف للک نے فلمی نغمات کو اپنی جاندار موسیقی سے لازوال بنایا لیکن سب سے پہلے ہم اس نعت کا ذکر کریں گے جس کی شہرت آج تک قائم ہے۔ یہ نعت ہدایت کار نذیر کی فلم ''نور اسلام‘‘ (1957) میں شامل کی گئی۔ اس نعت کو حسن لطیف للک نے اپنی زبردست موسیقی سے شاہکار بنا دیا۔ اس کے بول تھے ''شاہ مدینہﷺ‘ یثرب کے والی‘ سارے نبی تیرے درکے سوالی‘‘ فلمی نقاد یہاں تک کہتے ہیں کہ حسن لطیف للک کا سارا کیرئیر ایک طرف اور یہ نعت ایک طرف۔ یہ نعت وجد طاری کر دیتی ہے۔ اس نعت کو آنجہانی سلیم رضا نے گایا تھا۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود انہوں نے جس لگن اور عقیدت سے اس نعت کو گایا اس پر ان کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ اس شہرہ آفاق نعت کو درپن اور ان کے ساتھیوں پر عکس بند کیا گیا تھا۔
حسن لطیف للک کی بطور موسیقار پہلی فلم جدائی (1950ء) تھی لیکن ان کو پہلی کامیابی فلم ''انوکھی‘‘ سے ملی۔ جو فلم 1956میں ریلیز ہوئی تھی۔ حسن لطیف نے اس فلم میں صرف ایک گانے کی موسیقی ترتیب دی تھی اور یہ گیت زبیدہ خانم نے گایا تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حسن لطیف کا یہ واحد گیت عوام میں بے حدمقبول ہوا۔ اس کے بول تھے ''گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم میں ایک بھارتی اداکارہ شیلا رمانی نے ڈبل رول ادا کیا تھا جبکہ مرکزی کردار بھی اسی کا تھا۔ اس فلم میں نیر سلطانہ نے سیکنڈ ہیروئن کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ''انوکھی‘‘ اداکار لہری اور گلوکار احمد رشدی کی پہلی فلم تھی۔ 1956ء میں ''دیار حبیب‘‘ کے نام سے ایک مکمل مذہبی فلم بنائی گئی۔ عنایت حسین بھٹی نے اس فلم میں 6 گیت گائے۔ اس فلم میں حسن لطیف کے معاون موسیقار رحمان ورما تھے۔ 1959ء میں حسن لطیف کی پہلی پنجابی فلم ''لکن میٹی‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس زمانے میں زبیدہ خانم چھائی ہوئی تھیں اور ہر طرف ان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کا فن بھی اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ ان کا ایک گیت ''کوکلا چھپا کے جمعرات آئی ہے‘‘ پورے پنجاب میں زبردست مقبولیت سے ہمکنار ہوا۔اس کے بعد حسن لطیف نے 1959ء میں فلم ''شمع‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ شاندار گلوکار سلیم رضا کا گایا ہوا یہ گیت بڑا ہٹ ہوا تھا ''اے نازنیں‘ تجھ سا حسیں‘ہم نے کبھی دیکھا نہیں‘‘۔
۔1962ء حسن لطیف کیلئے ایک اہم سال تھا اس سال فلمساز‘ ہدایتکار اور مصنف ریاض شاہد کی شاہکار فلم ''سسرال‘‘ ریلیز ہوئی۔ ''سسرال‘‘ آج بھی پاکستان کی عظیم ترین اردو فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس فلم میں ریاض شاہد نے عوام کو ایک پیغام دیا تھا۔ اس دور میں جس موضوع پر ریاض شاہد نے یہ فلم بنائی اس پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ فلم کا موضوع یہ تھا کہ اگر معذور لڑکیوں سے نوجوان شادیاں نہیں کریں گے تو پھر وہ کہاں جائیں گی۔
اس فلم میں یوسف خاں‘ لیلیٰ‘ نگہت سلطانہ‘ آغا طالش اور علائو الدین نے لاجواب اداکاری کی۔ خاص طور پر علائوالدین نے تو کمال ہی کر دیا۔ فلم میں منیر نیازی کے گیتوں نے سماں باندھ دیا۔ دو گیت تو امر ہو گئے۔ لگتا ہے حسن لطیف نے اپنے سنگیت کے ذریعے ان دونوں گیتوں کو خون جگر دے دیا۔ ایک گیت تھا جو میڈم نورجہاں نے گایا اور اس کے بول تھے ''جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا‘‘ یہ نگہت سلطانہ پر عکس بند ہوا تھا۔ فلم کی سچویشن کے مطابق منیر نیازی نے بہت اعلیٰ گیت لکھا۔ ایک معذور لڑکی اپنے اس دلہے کا انتظار کر رہی ہے جسے آخری وقت میں یہ علم ہوتا ہے کہ اس کی شادی ایک معذور لڑکی سے ہو رہی ہے۔ وہ دلہا (علائو الدین) غم کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ادھر دلہن (نگہت سلطانہ) اس کا انتظار کرتی رہتی ہے لیکن وہ نہیں آتا۔ نگہت سلطانہ کی آنکھوں میں مایوسی کے مہیب سائے ہیں اور دل میں درد کا طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ نگہت سلطانہ نے بھی اس گیت کو لازوال بنانے میں اپنا حق ادا کر دیا۔فلم کا دوسرا عدیم النظیر گیت بھی منیر نیازی کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔اس کے بول تھے ''جس نے میرے دل کو درد دیا‘ اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں‘‘۔ علائوالدین پر فلم بند ہونے والا یہ گیت آج بھی اہل موسیقی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ یاد رہے کہ مہدی حسن کا یہ پہلا فلمی گیت تھا جس نے انہیں وہ شہرت دی کہ بعد میں وہ فلمی گائیکی کے حوالے سے ایک بڑا نام بن گئے۔ حسن لطیف للک اور منیر نیازی کو ''سسرال‘‘ کے گیتوں نے وہ مقام و مرتبہ دیا جو ہر کسی کو نہیں ملتا۔ کیا ایسے گیت آج کل لکھے جاتے ہیں‘ کیا ایسے گلوکار موجود ہیں جو یہ نغمات اتنی مہارت سے گا سکتے ہوں۔ کیا ان کی آواز میں وہ سوز اور درد ہے؟ اور پھر حسن لطیف جیسی دھنیں کون بنائے گا؟
۔1962 ء میں حسن لطیف نے میڈم نورجہاں اور سلیم رضا سے یہ خوبصورت گیت گوایا ''زندگی مجبور ہے‘ لاچار ہے‘‘۔ یہ ایک المیہ گیت تھا بعد میں انہوں نے ''شکوہ‘‘ میں احمد رشدی سے یہ مزاحیہ گیت گوایا ''انکل ٹام اکیلا ہے‘ جولی جولی‘‘۔ 1965 ء میں منیر نیازی اور حسن لطیف پھر اکٹھے ہوئے۔ حسن لطیف نے فلم ''تیرے شہر میں‘‘ کیلئے منیر نیازی کی اس غزل کو لافانی بنا دیا۔ اس غزل کا مطلع ملاحظہ کیجئے۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو جلانے آ جاتے ہیں
اپنے اپنے غم کے فسانے ہمیں سنانے آ جاتے ہیں
یہ غزل بھی آج تک اپنی تاثریت قائم رکھے ہوئے ہے۔مہدی حسن نے اس غزل کو نہایت مہارت سے گایا۔ ایسا لگتا تھا کہ حسن لطیف‘ مہدی حسن اور منیر نیازی کی یہ تکون بڑوں بڑوں کی چھٹی کرا دے گی۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو اس غزل کے مطلع میں منیر نیازی نے جس اکتاہٹ کا اظہار کیا ہے اس کی جھلک ان کی ایک غزل کے مقطع میں بھی دکھائی دیتی ہے جو کچھ یوں تھا۔
عادت سے بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا‘ اکتائے ہوئے رہنا
۔1966ء میں ان کی فلم ''ماں‘ بہو اور بیٹا‘‘ کے نغمات بھی ہٹ ہوئے۔ سب سے مشہور گانا میڈم نورجہاں کا تھا جس کے بول تھے ''لوگ دیکھیں نہ تماشا میری رسوائی کا‘‘ اس فلم کے ہدایتکار اکبر حسین رضوی تھے جو میڈم نورجہاں کے بیٹے تھے۔ 1968ء میں فلم ''کرشمہ‘‘ میں مجیب عالم کا گایا ہوا یہ نغمہ بڑا پسند کیا گیا ''اک مدت سے دیوانہ دل‘ خوشیوں کا زمانہ بھول گیا‘‘ 1970ء میں حسن لطیف نے پنجابی فلم ''میری دھرتی میرا پیار‘‘ کی موسیقی دی۔ اس فلم میں میڈم نورجہاں نے ایک بے مثال گیت گایا ''نہ رس وے‘ ویرا میں واری آں‘‘۔ ان کی آخری فلم ''بلونت کور‘‘ تھی جو 1975ء میں منظر عام پر آئی۔
حسن لطیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کم گو تھے۔ ان کے چند دوست تھے جن کا وہ بڑا خیال رکھتے تھے۔ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ دوستوںکو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے کیونکہ اس سے دوستی ختم ہو سکتی ہے۔ افضال عاجز کا اس حوالے سے کیا خوبصورت شعر ہے۔
چاہتا ہے تو اگر قائم رہے
دوستوں کی دوستی پرکھا نہ کر
حسن لطیف للک نے27فلموں میں قریباً 175 نغمات کی موسیقی دی۔ ان فلموں میں 22 اردو اور 5پنجابی فلمیں تھیں۔ تنویر نقوی نے ان کی فلموں کیلئے بہت نغمات لکھے جبکہ میڈم نورجہاں‘ زبیدہ خانم‘ سلیم رضا اور احمد رشدی نے ان کی موسیقی میں خوب گایا۔ مہدی حسن نے جو گیت گائے وہ امر ہو چکے ہیں۔ یہ بے بدل موسیقار 1979 ء میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔