وہ دس بارہ روپے کا چندہ ۔۔۔ طیبہ بخاری

wo das 12 aanay ka chanda.jpg
آج ہم آپ کو ایک ایسے چندے کا قصہ سنائیں گے جو صرف دس بارہ روپے کا ہے لیکن اپنے اندر انتہائی قیمتی معلومات و تاریخی سبق سموئے ہوئے ہے ۔ اس قصے سے آپ جو چاہیں جیسا چاہیں علمی خزانہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں تاریخ ، تحریک ، پاکستان سے محبت اور زندگی میں اپنے وطن کیلئے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ملتا ہے۔یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں بس تحریک پاکستان کے دور میں چلے جائیں اوربانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز شخصیت کے بارے میں سوچیں ۔ اس مستندقصے کی شروعات کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ''انسان کا ظاہر اتنا بے حیثیت ہے کہ ایک مچھر بھی اسے چکر میں لا سکتا ہے اور دم بھر کیلئے بھی چین نصیب نہیں ہونے دیتا ، لیکن اس کے باطن میں خدا نے ایسی صلاحیتیں رکھی ہیں کہ وہ ساتوں آسمانوں پر چھا سکتا ہے۔ ‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح عمری ''ارشاد نامہ ‘‘ کے انتساب میںملتے ہیں ۔ وطن عزیزکی عدلیہ کی تاریخ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کے نام اور کام سے اچھا تعارف رکھتی ہے ، 7جنوری 1937ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں کیا کیا مشاہدات نہیں کئے ہونگے ،برطانوی راج کا کچھ دور ،تحریک سے قیام پاکستان تک کا سفر ، برصغیر کے مسلمانوں کی دکھوں بھری ہجرت ، 1947ء تک جب نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی تھی ، تقسیم برصغیر اور مملکت خداداد پاکستان کا وجود عمل میں آرہا تھا تو اس وقت انکی عمر10برس کی تھی۔ یہ ممکن نہیں کہ تاریخ کے اس انتہائی اہم دور کی یادیں دل و دماغ میں محفوظ نہ رکھتے ہوں یہی وجہ ہے کہ جب اپنی داستان ِ زندگی کو قلم و قرطاس کے سپرد کیا تو اس کاعنوان ''ارشاد نامہ ‘‘ رکھا اور اس کا انتساب قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے نام کیا ۔ بابائے قوم ؒسے عقیدت ہی انہیں پیشہ وکالت کی طرف لے گئی اور پھر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔بہر حال ہم واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ قائد اعظم ؒ سے اپنی ملاقات اور دس بارہ روپے کے چندے کے حوالے سے ارشاد حسن خان لکھتے ہیں کہ ہم دہلی میں مقیم تھے ، میں اور چند بچے (طلباء )قائد اعظم ؒ سے ملنے چلے گئے ، ہم نے تحریک پاکستان کیلئے چندہ اکٹھا کیا تھا جو دس بارہ روپے ہو گا ، ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی پروٹوکول نہیں تھا ۔ جب قائد اعظم ؒ کو اطلاع دی گئی کہ سکول کے چند طالبعلم آپ سے ملاقات کیلئے آئے ہیں تو انہوں نے فوراً اندر بلوا لیا، اس وقت وہ کوئی تعزیتی پیغام لکھوا رہے تھے (بعد میں والد صاحب نے بتایا کہ ملک برکت علی جو تحریک پاکستان میں پیش پیش ایک سچے سیاستدان تھے 5اپریل 1946ء کو انکا انتقال ہو ا۔ یہ تعزیتی پیغام انہی کیلئے تھا ) ۔ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد قائد اعظمؒ بچوں سے ملنے تشریف لائے انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی آتی تھی اسی میں جواب دیدیا ۔ پھر ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی فرمائش کی ، محترمہ فاطمہ جناح ؒ بھی وہاں تھیں ۔ قائد اعظم ؒ نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ باہر بنچ پر بیٹھیں ، میں آتا ہوں ۔ 5منٹ بعد ہی قائد اعظم ؒ اپنے دفتر سے باہر تشریف لے آئے ، محترمہ فاطمہ جناح ؒ ان کے ہمراہ تھیں ۔ وہ خود بنچ پر بیٹھ گئے اور ہم سب کو کہا کہ پیچھے کھڑے ہو جائیں ۔ مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں ۔ میں نے درمیان میں بیٹھنے کو کہا تو قائد اعظم ؒ نے انتہائی نرمی کیساتھ میرے گالوں کو تھپتھپایا اور بڑی خوشدلی کیساتھ تصویر بنوائی ۔ ایک طرف وہ بیٹھے ، دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناحؒ بیٹھ گئیں ، باقی لڑکے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ میں بہت چھوٹا تھا لیکن اس تاثر کو کبھی نہیں بھلا پائوں گا جو قائد اعظم ؒ سے ملاقات کے بعد مجھ پر پڑا ۔ ان کی شخصیت کا سحر مجھے اب تک مسحور کئے ہوئے ہے ۔
قائد اعظم ؒ کو دوسری بار مسلم لیگ کے جلسے میں دیکھا، لوگوں کی کثیر تعدا قائد اعظم ؒ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے امڈ آئی تھی قائد اعظم ؒ بڑی مشکل سے سٹیج تک پہنچے ان کی تقریر کے چند الفاط آج بھی میری سماعت میں محفوظ ہیں انہوں نے پاٹ دار آواز میں کہا تھا کہ ''پاکستان بن کر رہیگا ‘‘ میں بھیڑ سے باہر ایک طرف بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ اچانک میں نے رونا شروع کر دیا سعید زکریا جن کے ذمے جلسے کے لائوڈ سپیکرز اور دیگر انتظامات تھے انہوں نے میرے رونے کا سبب پوچھا تو میں نے جواب دیا کہ قائد اعظمؒ دُبلے پتلے شخص ہیں ، کہیں اس بھیڑ میں گر کر زخمی نہ ہو جائیں ۔ اس لئے رو رہا ہوں ۔ یہ قائد اعظم ؒ سے محبت تھی جو میں وکیل بنا اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر پہنچا شاید یہ عزت بچپن کے چند معصوم آنسوئوں کے بدلے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بخشی ہو ۔
قائد اعظم ؒ کی عظیم قیادت میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ مارچ کا مہینہ ابھی جاری ہے اس اہم مہینے میں ہم سب مملکت خداد اد کے حوالے سے تاریخ کو یاد کرتے اور جذبۂ و تحریک حریت کو سلام پیش کرتے ہیں بابائے قوم ؒاور ان کے جانثار ساتھیوں کے حوالے سے چند نا قابل فراموش یادوں میں سے ایک آج ہم نے آپکے سپرد کی ۔ یہ قصہ معمولی یا عام سہی لیکن اس میں اتنا کچھ ہے جو ہمیں سوچنے اور آگے بڑھنے کی فکر و ہمت دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ کہ پاکستان بنانے کی جدوجہد میں بچوں نے بھی قائد اعظم ؒکا ساتھ دیا، مسلم لیگ کی مدد اور قائد اعظم ؒ کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے کم سنی کے باوجود چندے جمع کئے تا کہ وہ آزادی جیسی انمول نعمت حاصل کر سکیں ۔ یہ جذبوں کی سچائی تھی اور قائد اعطم ؒ کی قدردانی اور دور اندیشی کہ وہ تمام تر مشکلات کو روندتے ہوئے سب کو ساتھ لیکر چلے ،اور منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا ۔۔۔۔ اے قائد اعظم ؒ تیرا احسان ہے احسان ۔۔۔