یقین کو سینچنا ہے خوابوں کو پالنا ہے
بچا ہے تھوڑا سا جو اثاثہ سنبھالنا ہے
سوال یہ ہے چھڑا لیں مسئلوں سے دامن
کہ ان میں رہ کر ہی کوئی رستہ نکالنا ہے
جہان سوداگری میں دل کا وکیل بن کر
اس عہد کی منصفی کو حیرت میں ڈالنا ہے
جو مجھ میں بیٹھا اڑاتا رہتا ہے نیند میری
مجھے اب اس آدمی کو باہر نکالنا ہے
زمین زخموں پہ تیرے مرہم بھی ہم رکھیں گے
ابھی گڑی سوئیوں کو تن سے نکالنا ہے
کسی کو میدان میں اترنا ہے جیتنا ہے
کسی کو تا عمر صرف سکہ اچھالنا ہے
یہ ناؤ کاغذ کی جس نے ندی تو پار کر لی
کچھ اور سیکھے اب اس کو دریا میں ڈالنا ہے
ظفر گورکھپوری