پل پل جینے کی خواہش میں کرب شام و سحر مانگا
سب تھے نشاط نفع کے پیچھے ہم نے رنج ضرر مانگا
اب تک جو دستور جنوں تھا ہم نے وہی منظر مانگا
صحرا دل کے برابر چاہا اور یا آنکھوں بھر مانگا
ابر کے احساں سے بچنا تھا دل کو ہرا بھی رکھنا تھا
ہم نے اس پودے کی خاطر موجۂ دیدۂ تر مانگا
فاصلے کچھ قدموں میں سمیٹے آنکھوں میں کچھ دھوپ کے پھول
اس کے علاوہ اور نہ ہم نے کچھ سامان سفر مانگا
کوئی سر و سامان نہیں اور آندھی ہر دن کا معمول
ہم نے بھی کیا سوچ سمجھ کر بے دیوار کا گھر مانگا
سوچ رہا ہوں اپنی ہستی میں اپنا کیا حصہ تھا
دل پر یاروں کا حق ٹھہرا اور دشمن نے سر مانگا
کھلا کہ وہ بھی تیری طلب کا اک بے نام تسلسل تھا
دنیا سے جو بھی ہم نے حالات کے زیر اثر مانگا
ظفر گورکھپوری