میں نے اس سے یہ کہا حبیب جالب کی ایک یادگار نظم کی وجہ کیا بنی ۔۔۔ طیب رضا عابدی
Habib Jalib.jpg
حبیب جالب اپنے وقت کے انقلابی شاعر مشہور تھے ، وہ عوام کی زبان تھے،انہیںکئی بار جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ ''میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ‘‘ یہ نظم انہوں نے ایوب خان کے دور حکومت میں کہی تھی۔یہ نظم کئی انقلابی جلسوں میں پڑھی گئی اور اس کی دھوم دنیا بھر میں ہوئی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ حبیب جالب پرانی انارکلی سے گزر رہے تھے کہ انکی ملاقات شاعر حفیظ جالندھری سے ہو گئی۔ جالب نے پوچھا '' جالندھری صاحب کیا ہورہا ہے آجکل‘‘، پنجابی میں کہنے لگے ''اوئے کج نہ پوچھ میں آجکل بڑا مصروف آں‘‘ ۔ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''میں اودھا مشیر لگ گیا آں ۔‘‘ جالب نے جواباً کہا ''کیا اللہ کے مشیر لگ گئے ہیں؟ ‘‘۔ ''او نئیں تینوں نئی پتا، ایوب خان دا ایڈوائزر ہو گیا آں، او رات نوں 3 وجے وی بلا لیندا اے دس ہن کی کراںاور کہتا ہے یہ جو ایک شاعر (حبیب جالب)میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا کہتا پھرتا ہے اس پر بھی ڈنڈا رکھ اور جیل میں ڈال‘ ‘۔ تو اس پر حبیب جالب نے حکمرانوں اورکے مشیروں پر ایک نظم لکھ ڈالی ۔
یہ جو دس کروڑ (اس وقت عوام) ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اُس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
توہے مہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چْپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اُس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محوِ خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا
میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تْو یقیں ہے یہ گماں
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا