محمد سہیل عمر
حکایاتِ اقبال نوجوانوں کے لیے
گل اور خار
سحری گفت بلبل باغباں را
دریں گل جز نہال غم نگیرد
بہ پیری می رسد خار بیاباں
دلے گل چوں جواں گردو، بمیرد
ایک روز صبح کے وقت ایک بلبل نے باغبان سے کہا۔
’’اس دنیا کی کیفیت بھی کتنی عجیب ہے۔ اس کی مٹی کی خاصیت تو یہ ہے کہ اس میں صرف رنج و غم کا پودا ہی سر سبز ہوتا ہے۔ ہم اس دنیا کی حسین و جمیل چیزوں سے دل لگاتے ہیں، لیکن ان اشیاء کا حسن و جمال عارضی ثابت ہوتا ہے۔ یہ حسین و جمیل اشیاء جب چند روز اپنی بہار دکھا کر فنا ہوجاتی ہیں تو ہمارے دلوں کو رنج و غم میں مبتلا کر جاتی ہیں۔ ہم جو اِن چیزوں کے حسن و جمال اور خوب صورتی و رعنائی کے شیدائی ہوکر ان کی محبت کے گیت گاتے ہیں، ان کے حسن کی بہار کے فنا ہونے پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔حالاں کہ اس دنیا کے باغ میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کانٹے بھی، مگر کانٹے میں نہ تو حسن ہے نہ دل کشی، اس لیے کسی کا ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتا۔ نہ کوئی اسے حاصل کرنے کی تمنا کرتا ہے اور نہ کوئی اس کی شکل و صورت پر فریفتہ ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ ایک عرصے تک اپنی شاخ پر لگا رہتا ہے اور اپنی پوری عمر کو پہنچ کر یعنی کہ بوڑھا ہوکر مرتا ہے، مگر پھول میں چوں کہ حسن و جمال اور خوب صورتی و رعنائی پائی جاتی ہے، اس لیے اس کا حسن و جمال ہی اس کی موت کا سامان بن جاتا ہے کہ ادھر وہ جوان ہوا، ادھر اسے موت آئی۔ وہ کِھل کر پھول بنا اور ساتھ ہی اس کی موت کا پیغام آگیا۔ اوّل تو اسے کِھلتے ہی توڑ لیا جاتا ہے اور اگر وہ شاخ میں رہ بھی جائے، تب بھی اس کی زندگی اس قدر مختصر ہوتی ہے کہ صبح کِھلا اور شام ہوتے ہوتے مُرجھا کر موت کی آغوش میں پہنچ گیا۔
علّامہ اقبالؒؒ نے اس رباعی میں بلبل کی باغبان سے گفتگو کے پیرائے میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ اس دنیا میں حسن و جمال ہر لحظہ روبہ زوال ہے۔ انسان اس دنیا میں قدرتی طور پر حسین و جمیل اشیاء سے دل لگاتا ہے اور جب یہ حسین و جمیل اشیاء چند روز اپنے حسن و جمال کی بہار دکھا کر فنا ہوجاتی ہیں تو وہ افسوس سے ہاتھ ملتا رہتا ہے اور اس طرح یہ الم انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس دنیا کے باغ میں اگر کوئی پودا سرسبز ہوتا ہے تو وہ غم کا پودا ہے۔ کانٹا اپنی طبعی عمر پوری کرکے باغ سے رخصت ہوتا ہے لیکن پھول جوان ہوتے ہی موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔
کم و بیش یہی مضمون علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’حقیقتِ حسن‘‘ میں پیش کیا ہے کہ ایک روز حسن نے خدا کی بارگاہ میں عرض پیش کی کہ اے خدا! تو نے مجھے غیر فانی کیوں نہ بنا دیا؟ اس پر خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے جواب ملا کہ یہ دنیا تو رنگا رنگ تصویروں کا گھر ہے، جن میں سے کوئی بھی چیز اصل نہیں۔ یہ دنیا تو فنا ہونے والی ہے اور اس کا ظہور ہی تغیّر کے رنگ سے ہوا ہے۔ اسی لیے اس کی ہر چیز لحظہ بہ لحظہ بدلتی رہتی ہے۔ اس دنیا میں تو وہی شے حسین کہلاتی ہے جو فنا ہوجانے والی ہو۔
واضح رہے کہ حقیقتِ حسن کا اصل خیال علّامہ اقبالؒؒؒ نے جرمن نثر میں دیکھا تھا، جسے انھوں نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو نظم میں منتقل کردیا۔ ’’حقیقتِ حسن‘‘ میں حسن کے فانی ہونے کی حقیقت کا اظہار، حسن کی بارگاہِ خداوندی میں عرض کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، جب کہ اس رباعی میں یہ حقیقت بلبل کی زبان سے پھول اور کانٹے کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے بیان ہوئی ہے کہ کانٹا چوں کہ حسن اور دلکشی سے محروم ہے، اس لیے وہ عرصۂ دراز تک شاخ پر لگا رہتا ہے، یعنی بوڑھا ہوکر مرتا ہے مگر پھول جس میں حسن پایا جاتا ہے، جوان ہوتے ہی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔