پروانہ

شُتیدم در عدم پروانہ می گفت

دمے از زندگی تاب و تبم بخش

پریشاں کُن سحر خاکسترم را

ولیکن سوز و ساز یک شبم بخش



سنا ہے کہ پروانے نے دنیا میں آنے سے پہلے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی۔

’’اے خدا! تو اگر مجھے دنیا میں بھیجنا چاہتا ہے تو مجھے زندگی کی تب و تاب سے کچھ حصہ عطا فرما۔ میںدنیا میں ایک عاشق کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ میں کسی طویل زندگی کا آرزو مند نہیں ہوں۔ بے شک مجھے صرف ایک رات کی زندگی ملے اور اس ایک رات کے اختتام پر صبح کے وقت میرے وجود کی خاکستر پریشاں ہوکر بکھر جائے، لیکن عاشقِ صادق کی حیثیت سے سوزو ساز کی کیفیت میں بسر ہو۔ میں نہ صرف عشق کی آگ میں جلوں بلکہ اس جلنے میں مجھے لطف اور لذت بھی محسوس ہو۔‘‘
علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رباعی میں پروانے کی بارگاہِ خداوندی میں التجا کے پیرائے میں ایک عاشقِ صادق کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ عاشق کی زندگی کا جامع اظہار ’’سوز و ساز‘‘ سے بہتر الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ عاشق کی ساری زندگی ان ہی دو باتوں سے عبارت ہے کہ وہ عشق کی آگ میں جلتا ہے اور اس آگ میں جلتے ہوئے اسے ایک ایسا کیف ملتا ہے کہ اس کے آگے وہ دنیا جہان کی نعمتوں، راحتوں اور آسائشوں کو ہیچ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی سوز و ساز سے بھرپور زندگی کو اس درجہ قیمتی سمجھتا ہے کہ اس کے بدلے میں ’’شانِ خداوندی‘‘ بھی لینے کو تیار نہیں ہوتا:

متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
پروانے کی طرف سے ’’سوزو ساز‘‘ سے بھرپور صرف ایک رات کی زندگی کی خواہش کے استعارے میں علّامہ اقبالؒؒؒ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سوزوساز یا سوزو گداز کی کیفیت ہی وہ جوہر ہے، جس سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ یعنی انسان سوزو ساز ہی کا دوسرا نام ہے اور اسی میں اس کی ہستی کا راز مضمر ہے۔
پروانے کی زندگی کا یہ سبق آموز رُخ علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’شمع و پروانہ‘‘ میں بھی پیش کیا ہے۔ جس میں وہ شمع سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ پروانہ تجھ سے پیار کیوں کرتا ہے؟ یہ ننھی سی جان تجھ پر کس وجہ سے قربان ہوئی جاتی ہے؟ تیری ادا دیکھ کر یہ پارے کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔ تو نے اسے عشق کے کیا طور طریقے سکھا دیے ہیں؟ جہاں تیرا جلوہ ہو، وہاں یہ بار بار گھومنے اور چکر کھانے لگتا ہے۔ تیرے اوپر بے قرار ہوکر بار بار گرنا اس کے لیے موت کا سامان ہے۔ کیا اس کی جان کو موت کا دکھ سہ کر ہی آرام ملتا ہے؟ کیا تیری لو میں اسے وہ زندگی نظر آتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی؟ ہر وجود کے لیے ایک نماز ہے۔ پروانے کی نماز یہ ہے کہ تیرے سامنے جل کر مر جائے۔ اگرچہ اس کے پہلو میں ننھا سا دل ہے، لیکن اس میں سوز و ساز کا حوصلہ اور سوز و گداز کی لذت موجود ہے۔
بُوئے گل

جنت کی ایک حور یہ سوچ سوچ کر حیران و پریشاں ہوتی تھی کہ ہمیں آج تک کسی نے دنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ اس دنیا کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے، جہاں صبح بھی ہوتی ہے اور شام بھی۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ دنیا میں کبھی دن کا اجالا ہوتا ہے اور کبھی رات کی تاریکی۔ یہ صبح و شام کی بات اور اس سے بڑھ کر دن کے اجالے اور رات کی تاریکی کی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہاں جنت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں نہ صبح ہے نہ شام۔ یہاں نہ دن کا اجالا ہے اور نہ رات کی تاریکی۔ پھر یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس دنیا میں لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ بات تو میرے لیے بے حد عجیب و غریب ہے، کیوں کہ جنت میں نہ تو کوئی پیدا ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے۔ جنت کی فضائیں تو صبح و شام، دن اور رات، جینے اور مرنے کی کیفیتوں سے بالکل پاک ہیں۔ اس لیے کیوں نہ میں خود دنیا میں جائوں اور وہاں جاکر دنیا کی حقیقت معلوم کروں کہ وہاں صبح و شام اور دن اور رات کا چکر کیا ہے اور مرنا جینا کسے کہتے ہیں؟
یہ سوچ کر وہ حور جنت سے روانہ ہوئی اور اس نے دنیا میں قدم رکھا۔ دنیا میں آکر وہ موجِ نکہت کی صورت اختیار کرکے پھول کی ایک ٹہنی میں پنہاں ہوگئی۔ پھر اس نے آنکھ کھولی اور غنچے کی شکل میں آگئی۔ غنچے میں آنے کے بعد وہ مسکرائی اور کِھل کر پھول بن گئی۔ پھول کی صورت میں شگفتہ ہونے اور کچھ دیر مسکرانے کے بعد وہ پتیوں کی صورت میں زمین پر گر پڑی۔ جب وہ پتّی پتّی ہوکر زمین پر گری اور قیدِ ہستی سے آزاد ہوئی تو اس کے سینے سے ایک آہ نکلی… یہی وہ آہ ہے جسے ہم دنیا والے خوشبو کہتے ہیں۔

علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک خوب صورت تخیّلی نظم ہے، جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ پھول میں خوشبو کہاں سے آئی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن جنت میں ایک حور کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آج تک کسی نے مجھے دنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ سنا ہے کہ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں صبح بھی ہوتی ہے اور شام بھی، دن بھی ہوتا ہے اور رات بھی۔ پھر وہاں لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، جب کہ جنت میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ چناں چہ وہ حور جنت سے چلی اور زمین پر آکر پھول کی ٹہنی میں چھپ گئی۔ وہاں سے وہ غنچے کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر پھول بن گئی۔ جب وہ پتّی پتّی ہوکر زمین پر گری اور فنا ہوکر واپس جنت کی طرف جانے لگی تو اس کے سینے سے ایک آہ نکلی۔ اس آہ کو دنیا والوں نے خوشبو کا نام دے دیا۔گویا پھول اگرچہ مادّی دنیا سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اس کے اندر جو خوشبو ہے، وہ غیر مادّی ہے اور فی الحقیقت ایک لطیف آسمانی جوہر ہے۔