جب اتنی جاں سے محبت بڑھا کے رکھی تھی
تو کیوں قریب ہوا شمع لا کے رکھی تھی
فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو
مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی
ذرا پھوار پڑی اور آبلے اگ آئے
عجیب پیاس بدن میں دبا کے رکھی تھی
اگرچہ خیمۂ شب کل بھی تھا اداس بہت
کم از کم آگ تو ہم نے جلا کے رکھی تھی
وہ ایسا کیا تھا کہ نا مطمئن بھی تھے اس سے
اسی سے آس بھی ہم نے لگا کے رکھی تھی
یہ آسمان ظفرؔ ہم پہ بے سبب ٹوٹا
اڑان کون سی ہم نے بچا کے رکھی تھی
ظفر گورکھپوری