ٹیپو سلطان اور نپولین بونا پارٹ ۔۔۔۔۔۔ عبدالحفیظ ظفر
Tippu sultan aur Nepolian.jpg
دونوں کافی عرصے سے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے اور دونوں میں خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کچھ فرانسیسی ٹیپو سلطان کی مدد کرنے میسور پہنچے بھی تھے۔ ٹیپو سلطان کی طرح نپولین بوناپارٹ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان سے نکالنے کا شدید آرزومند تھا۔ نپولین اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھا کہ میسور کا حکمران اپنے عوام میں بہت مقبول ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سماجی انصاف کا علمبردار تھا۔ اس کے علاوہ میسور ہندوستان کی سب سے زیادہ خوشحال ریاست تھی۔ ٹیپو سلطان نے پالیگاروں کا خاتمہ کیا۔ یہ پالیگار اس زمانے کے ساہوکار تھے جو غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ٹیپو سلطان سے خوفزدہ تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ٹیپو سلطان مزاحمت کی وہ دیوار ہے جسے گرانا آسان کام نہیں۔ ٹیپو سلطان نے میسور میں سکوں کا نیا نظام اور کیلنڈر متعارف کرایا۔ وہ یقینی طور پر اختراع پسند تھا۔
ٹیپو سلطان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تاریخ میں پہلی بار جنگ میں راکٹوں کا استعمال کیا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی بنگلور میں وہ راکٹ بھی برآمد کیے گئے جو ٹیپو سلطان نے جنگوں میں استعمال کیے تھے۔ اس نے برطانوی فوجوں کی پیش قدمی روکنے کیلئے راکٹ نصب کئے۔ سرنگاپٹم کے محاصرے کے دوران بھی یہ راکٹ استعمال کیے گئے۔ فرانس کے فوجی جرنیل نپولین بوناپارٹ نے ٹیپو سلطان کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی طرف قدم بڑھایا۔ ٹیپو سلطان اور اس کے والد حیدر علی نے اپنی فوج کو جس کی فرانسیسی فوجیوں نے تربیت کی تھی‘ فرانس کے ساتھ اتحاد کر کے انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کی۔ اس کے علاوہ ان اتحادیوں نے میسور کے اردگرد کی طاقتوں کا بھی خوب مقابلہ کیا۔ ان میں مرہٹے‘ سیرا‘ مالابار‘ کوڈاگو‘ بیڈنور اور ٹریون کور شامل ہیں۔ اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد ٹیپو میسور کا حکمران بنا اور اس نے انگریزوں اور میسور کی دوسری جنگ (Anglo-Mysore war) میں فتح حاصل کی۔اس کے بعد اس نے 1784 میں معاہدہ مینگلور کیلئے انگریزوں سے مذاکرات بھی کیے۔ دوسری جنگ کے دوران ٹیپو کے والد حیدر علی کا سرطان کے مرض کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی ٹیپو سلطان سے دشمنی برقرار رہی اور اس کی وجہ 1789 ء میں اس کا بریون کور پر حملہ تھا جو برطانیہ کا اتحادی تھا۔ تیسری جنگ میں ٹیپو سلطان کو سرنگا ٹپم معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس معاہدے کی رو سے اسے اپنے مفتوحہ علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ ان علاقوں میں مالا بار اور مینگلور شامل تھے ، اس نے مختلف ممالک میں اپنے ایلچی بھیجے جن میں عثمانی سلطنت‘ افغانستان اور فرانس شامل ہیں۔ ان ایلچیوں کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ کی مخالفت میں سب اکٹھے ہو جائیں۔
انگریزوں اور میسور کے مابین چوتھی جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے علاوہ مرہٹے اور نظام آف حیدرآباد بھی شامل تھے اور پھر میر صادق جیسے غدار نے بھی ٹیپو کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ ان سب نے مل کر ٹیپو کو شکست دے دی۔ 4مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان کو شہید کر دیا گیا۔ اس وقت شیر میسور اپنے قلعے سرنگا پٹم کا دفاع کر رہا تھا۔ ٹیپو کی میت کو ایک انگریز سپاہی نے پہچانا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جلد از جلد ٹیپو سلطان سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی کیونکہ اسے یہ خطرہ تھا کہ کہیں نپولین اپنی فوج کو لے کر میسور نہ آ جائے۔ سر والٹر سکاٹ کے مطابق حیدر علی اور اس کا بیٹا ٹیپو سلطان دونوں نپولین بوناپارٹ سے بہت متاثر تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیپو سلطان نے انگریزوں اور مرہٹوں کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ وہ جب تک حکمران رہا‘ اسے آزمائشوں کا سامنا رہا لیکن اس کے پایۂ استقامت میں لغزش نہ آئی۔
جب برطانوی فوجوں نے شہر کی دیواریں توڑ دیں تو فرانس کے فوجی مشیروں نے ٹیپو سلطان کو مشورہ دیا کہ وہ خفیہ راستوں سے بھاگ جائے لیکن اس نے انکار کر دیا۔ یہی اس کی بہادری اور شجاعت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ وہ عزم اور حوصلے کی چٹان تھا اور میدان چھوڑ کر بھاگنا اس کی فطرت میں نہیں تھا۔ اس کا یہ قول اس کی زندگی کا پورا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ شیر کی1 دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔
ہم یہاں اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ 1999ء میں جب ٹیپو سلطان کا 200واں یوم شہادت منایا جا رہا تھا تو سابق وزیر بے نظیر بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹیپو سلطان کے آبائو اجداد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ان کے مطابق ٹیپو سلطان کے آبائو اجداد کا تعلق چنیوٹ سے تھا۔ حیدر علی کے والد فتح محمد جو بنیادی طور پر پنجاب سے تعلق رکھتے تھے سیرا چلے گئے (اب ضلع تماکورو) ان کے ساتھ ان کے والد محمد علی خان اور چچا محمد ولی خان بھی تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان کے آبائو اجداد چنیوٹ کے ایک قبیلے سپرا سے تعلق رکھتے تھے۔
اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نپولین بوناپارٹ ہندوستان کیوں آنا چاہتا تھا اور ٹیپو سلطان کی مدد کیوں کرنا چاہتا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نپولین مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم جمانا چاہتا تھا اور اس کیلئے ضروری تھا کہ وہ جنوبی ہندوستان کے حکمرانوں کو اپنے ساتھ ملائے، یہ اس کا خواب تھا۔ نپولین نے ٹیپو سلطان کو کئی خطوط بھی لکھے 2017 میں مشہور برطانوی مؤرخ اینڈریو رابرٹس نے جے پور لٹریچر فیسٹیول میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ نپولین کے خطوط تھے جن کی وجہ سے ٹیپو سلطان مصائب میں گھر گیا۔ اس نے ٹیپو سلطان کو اتحاد کی تجویز دی جس پر انگریز حکمرانوں نے ٹیپو سلطان کی سزائے موت یقینی بنا دی۔ اس وقت نپولین مصر میں تھا اور وہ ہندوستان پیش قدمی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی فوجی طاقت بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ راستے میں2 بڑے صحرا تھے اور برطانوی بہت طاقتور تھے۔ اگرچہ نپولین نے اپنے کئی فوجی ٹیپو کی مدد کیلئے بھیجے تھے لیکن وہ خود نہ آ سکا۔
1793 ء میں فرانس اور برطانیہ کی جنگ نے فرانسیسی کاوشوں کو تقویت بخشی کہ وہ مقامی حکمرانوں کی مدد سے انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکال دیں۔ ہندوستان میں فرانس کی سب سے بڑی ملکیت پونڈیچیری تھا۔
حیدر علی تو انگریزوں کا دشمن تھا ہی لیکن ٹیپو سلطان اپنے باپ سے بھی ایک قدم آگے تھا۔ٹیپو سلطان فرانسیسیوں کا اتحادی تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ''انقلاب فرانس‘‘ کے دوران ٹیپو سلطان نے بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا تھا اور نپولین کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔ نپولین نے ٹیپو سلطان کو ایک مراسلہ بھیجا۔ اس نے کہا کہ اگر ممکن ہوا تو وہ زمین اور سمندر کے راستے اپنی فوجیں ہندوستان بھیجے گا۔ مقصد ایک ہی تھا کہ انگریزوں کو یہاں سے نکالا جائے ۔ شومئی قسمت کہ اس منصوبے پر عمل نہ ہو سکا۔
باایں ہمہ ٹیپو سلطان 1798 ء تک نپولین بوناپارٹ سے رابطے میں رہا۔ ادھر ہندوستان کے گورنر جنرل جون شورے کو تبدیل کر دیا گیا اور اس کی جگہ لارڈ ویلسلے آ گیا۔ لارڈ ویلسلے نے ٹیپوسلطان کی سرکوبی کا فیصلہ کر لیا۔ ویلسلے نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرانسیسی مہرے نظام آف حیدرآباد کو ترغیب دی کہ وہ فرانسیسی اتحاد ختم کر دے اور فرانسیسی سپاہیوں کو سبکدوش کر دے۔ 1799 ء میں جب نپولین شام میں فوجی مہم میں مصروف تھا تو انگریزوں نے ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا۔ انگریزوں اور میسور کے درمیان یہ چوتھی جنگ تھی اور اسے (Fourth Anglo Maysore War) کہا جاتا ہے۔ نپولین نے فرانسیسی ڈائریکٹری (فرانس میں برسراقتدار 5 ڈائریکٹرز کی تنظیم) کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ جونہی مصر پر قبضہ کر لے گا تو ہندوستان کے شہزادوں سے رابطے قائم کر ے گا اور پھر ان کے ساتھ مل کر انگریزوں پر حملہ کر دے گا۔
13فروری 1798ء کو فرانسیسی سفارتکار ٹیلی رینڈ (Tellyrand) کی ایک رپورٹ کے مطابق نپولین نے کہا تھا کہ مصر کو فتح کرنے کے بعد ہم سویز سے بھارت 15,000فوجی بھیجیں گے جو ٹیپو سلطان کی فوجوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے اور انگریزوں کیلئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہوگی لیکن نپولین کی یہ حکمت عملی اس وقت ناکام ہو گئی جب 1799ء میں ایکرے (اس وقت سلطنت عثمانیہ کا شہر) کا محاصرہ اس سے ختم کرا لیا گیا۔ پھر 1801 ء میں وہ ابوکیر(مصر) کی لڑائی بھی ہار گیا۔ ایکرے شہر آج کل اسرائیل میں ہے۔
ذرا سوچئے۔ اگر قسمت یاوری کرتی اور نپولین کو مصر میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور اس کی فوجیں ٹیپو سلطان کے ساتھ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھڑ جاتیں تو پھر کیا ہوتا؟ شائد پورے ہندوستان کا نقشہ ہی بدل جاتا لیکن تاریخ میں کچھ اور ہی لکھنا ٹھہرا تھا ۔